برطانوی پولیس کی الطاف حسین کی متنازع تقریر سے متعلق تفتیش مکمل
راولپنڈی: برطانیہ کی میٹروپولیٹن پولیس کی 12 رکنی ٹیم نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) لندن کے قائد الطاف حسین کی 2016 کی متنازع تقریر سے متعلق کیس میں اپنی تفتیش مکمل کرلی۔
واضح رہے کہ برطانوی پولیس کیس میں ثبوتوں کے حصول اور گواہوں کے بیانات کے لیے اتوار کو پاکستان آئی تھی۔
اس تفتیش کے دوران سندھ پولیس حکام کی ٹیم کے 6 اراکین برطانوی پولیس کی انسداد دہشت گردی کمانڈ (ایس او 15) کے سامنے بطور گواہ پیش ہوئے تھے اور اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا۔
مزید پڑھیں: لندن پولیس کی الطاف حسین کی تقریر سے متعلق سندھ پولیس کے حکام سے تفتیش
اس سلسلے میں سندھ پولیس کے حکام کو وفاقی تحقیقاتی ادارے کے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد میں بلایا گیا تھا، جو پولیس افسران و اہلکار برطانوی تفتیش کاروں کے سامنے پیش ہوئے ان میں سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) شرقی کراچی میں تعینات سب انسپکٹر عبدالغفار، ایس ایس پی انویسٹی گیشن جنوبی 1 کراچی انسپکٹر حمید خان، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) صدر کنور آصف، اسٹیشن ہاؤس افسر صدر انسپکٹر پیر شبیر حید، صدر پولیس کے کانسٹیبل راؤ راشد اور پولیس اسٹیشن آرٹلری میدان کے کانسٹیبل قمر زمان شامل تھے۔
ایف آئی اے کے انسداد دہشت گردی ونگ (سی ٹی ڈبلیو) کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مظہر الحق کاکا خیل نے اس کیس میں تفتیش مکمل کرنے میں برطانوی پولیس کے ساتھ تعاون کیا تھا۔
کیس کی تفتیش کے دوران برطانوی پولیس کے ماہرین نے سندھ پولیس کے ان حکام کا انٹرویو کیا جو اس وقت صدر کراچی میں تعینات تھے جب اگست 2016 میں الطاف حسین نے پاکستان مخالف تقریر کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کیس اسلام آباد منتقل کرنے کا فیصلہ
ایم کیو ایم کے قائد کی اس تقریر کے بعد ان کی جماعت کے حامیوں نے کراچی پریس کلب کے قریب میڈیا ہاؤسز پر مبینہ طور پر حملہ کیا تھا، پرتشدد کارروائیاں کی تھی اور گاڑیوں کو نذرآتش کیا تھا۔
تفتیش سے متعلق سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ برطانوی سی ٹی سی ٹیم کا مقصد 22 اگست 2016 کے واقعے کے اہم گواہوں سے تحریر بیان کو ثبوت کی شکل میں حاصل کرنا تھا۔
برطانوی پولیس کی جانب سے حاصل کیے گئے ثبوتوں کو اس بات کا تعین کرنے کے لیے کراؤن پروسیکیوشن سروس کے سامنے پیش کیا جائے گا کہ آیا برطانوی عدالتوں میں الطاف حسین کے خلاف کارروائی کے آغاز کے لیے یہ کافی مواد ہے۔
یہ خبر 13 اپریل 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی