آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آؤٹ پیکج پر معاملات تقریباً مکمل ہوگئے، اسد عمر
واشنگٹن: وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ پاکستان اور بین الاقوامی مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) ملک کی بیمار معیشت کو درست کرنے کے لیے بیل آؤٹ پیکج کے مکمل معاہدے پر پہنچ گئے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے میں نیوز بریفنگ کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ’گزشتہ 2 روز میں ہم کم و بیش ایک معاہدے کو حتمی شکل دینے میں کامیاب ہوگئے ہیں، آنے والے ایک یا 2 روز میں ہمیں امید ہے کہ اس معاہدے کے حوالے سے اہم پیش رفت سامنے آئی گی، جس کے بعد ہم آپ سے تفصیلات شیئر کریں گے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’اگلے مرحلے میں آئی ایم ایف تکنیکی تفصیلات کے حل کے لیے آئندہ کچھ ہفتوں میں اپنا مشن پاکستان بھیجے گا لیکن اصولی طور پر ہم ایک معاہدے کے قریب ہیں‘۔
خیال رہے کہ اسد عمر منگل کو واشنگٹن پہنچے تھے، جہاں انہوں نے 2 روز تک آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے حکام سے گروپ اسپرنگ کے اجلاس کے موقع پر بات چیت کی تھی اور ان کے ساتھ آنے والی ماہرین کی ٹیم کے ساتھ 3 سال کے لیے اربوں ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کو حتمی شکل دینے کے لیے واشنگٹن میں ہی رہے تھے۔
مزید پڑھیں: ڈیڑھ سال بعد آنے والی معاشی ترقی پائیدار ہوگی، اسد عمر
اگرچہ اسد عمر کی جانب سے ان تکلیف دہ چیزوں کا ذکر نہیں کیا گیا جس پر ابھی کام کرنے کی ضرورت ہے، تاہم ڈان کو معلوم ہوا ہے کہ آئی ایم ایف مارکیٹ کی بنیاد پر ایکسچینج ریٹ پر زور دے رہا ہے جبکہ پاکستان اپنے منظم فلوٹ کے موجودہ نقطہ نظر کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے دوران آئی ایم ایف حکام نے پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) پر اپنے خدشات اور آئی ایم ایف پروگرام پر اس کے ممکنہ اثرات کا اظہار کیا لیکن ’پاکستان کی جانب سے انہیں یقین دہانی کروائی گئی کہ دونوں پروگرامز کے درمیان کوئی تنازع نہیں‘۔
وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ کچھ مزید معاملات کو اسلام آباد میں مکمل کیا جائے گا اور اس کے بعد پیکج پر دستخط ہوں گے۔
پریس کانفرنس سے قبل وزیر خزانہ نے سفارتخانے میں پاکستانی امریکن کمیونٹی سے بھی خطاب کیا اور انہیں بتایا کہ کیوں ملک کو بیل آؤٹ پیکج کی ضرورت ہے۔
اسد عمر نے کہا کہ معاشی لحاظ سے پاکستان 3 بڑی مشکلات، مالی خسارے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور بچت و سرمایہ کاری کے درمیان واضح فرق کا سامنا کر رہا ہے۔
انہوں نے کہ کہا کہ ’اس وقت صورتحال ایسی ہے کہ ہم پرانا قرض اتارنے کے لیے قرض نہیں لے رہے بلکہ اس قرض کا سود ادا کرنے کے لیے یہ کرنا پڑ رہا ہے‘۔
دوران گفتگو انہوں نے اپنے استعفیٰ کی افواہوں کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’میں کہیں نہیں جارہا‘۔
اس موقع پر ان سے ایک سوال کیا گیا کہ پاکستان کے معاملے میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کیا ایکشن لے سکتا ہے؟ جس پر اسد عمر کا کہنا تھا کہ اگلا جائزہ مئی کے وسط میں لیا جائے گا اور پاکستان کے لیے اس جائزے کی رپورٹ بھیجنے کا آخری وقت 15 اپریل تک ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان وقت پر اپنی رپورٹ بھیجے گا اور اس کے بعد مئی میں جائزہ لینے والی ٹیم پاکستان کا دورہ کرے گی لیکن حتمی فیصلے کے لیے اصل ڈیڈ لائن ستمبر میں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسد عمر کی عالمی بینک کے صدر اور آئی ایم ایف حکام سے ملاقات
انہوں نے کہا کہ آخری جائزے کے بعد سے پاکستان نے نمایاں بہتری کی، جسے ہر اس نے تسلیم کیا، جس سے ہم نے عملی طور پر بات کی، تاہم ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا ایک دہاندلی زدہ جیوری کے ذریعے ہمارے بارے میں اندازہ لگایا جائے گا؟
انہوں نے کہا کہ حال ہی میں ایف اے ٹی ایف کے صدر کو لکھے گئے خط میں ان سے کہا ہے کہ ایشیا پسیفک جوائنٹ گروپ کے شریک چیئرمین کے لیے بھارت کے بجائے کسی دیگر ملک کے رکن کو مقرر کریں، کیونکہ بھارت کے وزیر خزانہ کی بات ریکارڈ پر ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو معاشی طور پر تنہا کرنے کے لیے اپنے اختیار میں موجود ہر چیز کو استعمال کریں گے، تو پاکستان کو معاشی تنہا کرنے کے لیے ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں ڈالنے سے بہتر کوئی راستہ ہوسکتا ہے؟
وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ بھارت کے ساتھ مشترکہ سماعت میں پاکستان ایف اے ٹی ایف سے منصفانہ اور غیر جانبدار فیصلے کی توقع نہیں کرسکتا۔