'خادم حسین رضوی کا ضمانت نامہ دینے کا وقت گزر گیا'
لاہور ہائیکورٹ میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سربراہ خادم حسین رضوی کی درخواست ضمانت سے متعلق سماعت پر وکیل نے کہا کہ ہم ضمانت نامہ دینے کو تیار ہیں، تاہم عدالت نے ریمارکس دیے ہیں کہ اب وہ وقت گزر گیا، قانون کے مطابق کیس کا فیصلہ ہوگا۔
عدالت عالیہ میں جسٹس محمد قاسم خان کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے خادم حسین رضوی کی درخواست ضمانت پر سماعت کی، اس دوران درخواست گزار کی جانب سے حفیظ الرحمٰن چوہدری سمیت دیگر وکلا پیش ہوئے۔
دوران سماعت جسٹس قاسم خان نے پوچھا کہ آئندہ قانون کو ہاتھ میں لینے کے حوالے سے خادم رضوی نے ضمانت نامہ لکھ دیا یا نہیں؟ اس پر وکیل نے جواب دیا کہ سپرنٹنڈنٹ جیل نے خادم حسین رضوی سے ملاقات نہیں کرنے دی، جمعہ کو ملاقات شیڈول ہے۔
مزید پڑھیں: ’خادم حسین ضمانت دیں، رہائی کے بعد امن و امان میں خلل نہیں ڈالیں گے‘
وکیل کے جواب پر جسٹس قاسم نے پھر استفسار کیا کہ خادم حسین رضوی کیا لکھ کر دینے کو تیار ہیں، انہیں لکھنا چاہیے کہ خادم رضوی لوگوں کو دوبارہ ایسی ہدایت نہیں دیں گے، ہمارے لیے وزیر اعظم اور نتھو چوکی سب برابر ہیں، فیصلہ قانون کے مطابق ہو گا۔
اس دوران عدالت میں خادم رضوی کی تقریر کی ٹرانسکرپٹ میں پیش کی گئی جبکہ خادم حسین کے وکیل نے کہا کہ حکومت نے معاہدے کے باوجود ان کے موکل کو گرفتار کیا۔
جس پر جسٹس قاسم خان نے استفسار کیا آپ کے کہنے کا مطلب ہے حکومت نے خادم حسین رضوی کو دھوکا دیا ہے؟ معاہدے میں کہاں لکھا ہے کہ قانون ہاتھ میں لینے والوں کو گرفتار نہیں کیا جائے گا؟ اس پر وکیل نے جواب دیا کہ بالکل حکومت نے خادم حسین رضوی کے ساتھ دھوکا کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خادم حسین رضوی نے پر امن احتجاج کیا، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ 3 دن ملک کی کیا کیفیت تھی؟ درجنوں گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی۔
عدالتی ریمارکس پر وکیل نے جواب دیا کہ خادم حسین رضوی نے ججز اور فوج کے بارے میں کوئی بات نہیں کی، ہم ضمانت نامہ دینے کو تیار ہیں، اس پر جسٹس قاسم خان نے کہا کہ اب وہ وقت گزر گیا دلائل کی روشنی میں قانون کے مطابق فیصلہ ہو گا۔
اس موقع پر وکیل کی جانب سے استدعا کی گئی کہ خادم رضوی کی درخواست ضمانت منظور کی جائے، جس پر عدالت نے کیس کی مزید سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔
یہ بھی پڑھیں: خادم حسین رضوی کے جوڈیشل ریمانڈ میں مزید توسیع
خیال رہے کہ گزشتہ سماعت پر لاہور ہائی کورٹ نے تحریک لبیک پاکستان کے صدر خادم حسین رضوی کی ضمانت کی درخواست پر رہائی کے بعد امن و امان میں خلل نہ ڈالنے سے متعلق تحریری ضمانت طلب کی تھی۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال توہین مذہب کے مقدمے میں مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو رہا کیے جانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے خلاف تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے پُر تشدد مظاہروں کے دوران املاک کو نقصان اور توڑ پھوڑ کی گئی تھی۔
جس کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے تحریک لبیک پاکستان کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کیا گیا تھا، اس دوران خادم حسین رضوی کو 23 نومبر 2018 کو 30 روزہ حفاظتی تحویل میں لیا گیا تھا اور بعد ازاں انسداد دہشت گردی عدالت نے رواں سال جنوری میں انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔