کے ایس ای انڈیکس مسلسل گراوٹ کے بعد 3 سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گیا
کراچی: اسٹاک مارکیٹ 3 برس سے جہاں شیئرز کی قیمتوں میں کمی کا سامنا کر رہی ہے وہی مسلسل گراوٹ کا شکار کے ایس ای انڈیکس بھی 3 سال کی کم ترین سطح 36 ہزار 579 پوائنٹس پر پہنچ گیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 3 سال قبل 25 مئی 2017 کو 53 ہزار 124 پوائنٹس کی بلندیوں پر پہنچنے والا کے ایس ای 100 انڈیکس میں 16 ہزار 545 پوائنٹس (31 فیصد) تک کمی واقع ہوچکی ہے، جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ سرمایہ کاروں کی بچت کا تقریباً ایک تہائی حصہ ختم ہوچکا ہے۔
اسی عرصے کے دوران پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی مارکیٹ سرمایہ کاری میں بھی 3 ٹریلین (30 کھرب) روپے کی کمی ہوئی اور یہ 10.5 ٹریلین (105 کھرب) روپے سے 7.5 ٹریلین (75 کھرب) روپے پر پہنچ گئی۔
مزید پڑھیں: پاکستان کی ترقی کی شرح نیپال اور مالدیپ سے بھی کم رہے گی، اقوام متحدہ
جولائی 2018 کے انتخابت تک سرمایہ کاروں کے ذہنوں پر سیاسی بے یقینی کی صورتحال سوار تھی لیکن نئی حکومت کے آنے کے بعد اقتصادی اعداد و شمار نے مارکیٹ کو پریشانی سے دوچار کردیا ہے جبکہ کم ہوتا زر مبادلہ اور مالیاتی بحران بھی تشویش کی بڑی وجہ ہے۔
واضح رہے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کی رپورٹ میں گزشتہ ہفتے معیشت کی ایک سنگین صورتحال کو پیش کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ دونوں خساروں کو کم کرنے کے لیے مالیاتی اور مانیٹری پالیسز سخت کرنے کے باوجود پاکستان کو میکروانکامک چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا اور رواں مالی سال کے دوران جی ڈی پی (مجموعی ملکی پیداوار) 3.9 فیصد تک گر سکتی ہے۔
اس کے علاوہ بین الاقوامی مانیٹری فنڈ نے امدادی پروگرام کی غیر موجودگی میں بھی آئندہ 5 برسوں کے لیے پاکستانی کی اقتصادی ترقی کی اوسطاً 2.5 فیصد تک پیش گوئی کی ہے۔
دوسری جانب وزیر خزانہ اسد عمر نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ ملک کے پاس 2 خطرناک راستے تھے، ’آیا ملک آئی ایف ایم کے پاس جائے یا دیوالیہ‘ ہوجائے۔
اس بیان نے سرمایہ کاروں کے خوف کو مزید بڑھا دیا تھا کیونکہ وزیر خزانہ کے بیان نے مارکیٹ میں مزید ہیجانی صورتحال پیدا کردی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں ٹیکس وصولی کے ساتھ رشوت خوری میں بھی اضافہ ہوا، آئی ایم ایف
مارکیٹ کے امور پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا تھا کہ کیونکہ مارکیٹ ’10 فیصد معیشت اور 90 فیصد نفسیات‘ پر ہوتی ہے اور اس کے لیے سرمایہ کاروں کے ذہن میں اعتماد پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ وہ مستقبل کو مزید واضح طور پر دیکھ سکیں۔
اگرچہ مارکیٹ کے کچھ ماہرین آنے والے وفاقی بجٹ میں صنعت کی ترقی کے لیے اُمید رکھتے ہیں لیکن تاجروں اور مارکیٹ پر گہری نظر رکھنے والوں کو لگتا ہے کہ بہتری سے پہلے چیزیں مزید بدتر ہوں گی۔
تمام صورتحال پر غور کریں تو اسٹیٹ بینک کی جانب ڈسکاؤنٹ ریٹ کو 10.75 فیصد تک بڑھا دیا تھا جبکہ مرکزی بینک کی جانب سے مانیٹری پالیسی مزید سخت کرنے کا خدشہ ہے، اس کے علاوہ روپے کی قدر میں بھی 35 فیصد سے زائد کمی ہوئی ہے جبکہ مارچ میں کنزیومر پرائس انڈیکس 9.41 فیصد تک پہنچ گیا تھا جو گزشتہ 5 برسوں کے دوران مہنگائی کی سب سے زیادہ شرح تھی۔