ہمارے ماحول کی بقا کے ضامن جنگلی حیات خطرے میں
محکمہ جنگلی حیات خیبر پختونخوا کی جانب سے جاری کردہ سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں جنگلی حیات کی سب سے زیادہ اقسام خیبر پختونخوا میں پائی جاتی ہیں، تاہم یہاں ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب انواع و اقسام کے پرندے، جانوروں اور مختلف ادویات میں استعمال ہونے والے پودے انتہائی خطرناک صورت اختیار کرتے جارہے ہیں۔
محکمے کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں 464 مختلف اقسام کے پرندے، 98 قسم کے دودھ دینے والے اور ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے جانور کے ساتھ ساتھ 5 سے 6 ہزار ایسے پودے موجود ہیں جو ادویات میں استعمال ہوتے ہیں۔
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) پشاور کے کورڈینیٹر ڈاکٹر کامران حسین کے مطابق صوبے میں وائلڈ لائف کی اتنی اقسام ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہاں کے جغرافیائی خدوخال ہیں۔ اونچے اونچے پہاڑ اور ان پر موجود گلیشئرز، گرم مرطوب علاقوں کی موجودگی، بنجر، بارانی نشیبی اور زرخیز زمینوں کی فراوانی جنگلی حیات کو ہر قسم کے مسکن (Habitats) دینے کی ضامن ہیں۔ تاہم صوبے کی آب و ہوا میں تبدیلی، درجہ حرارت اور آبادی میں اضافے اور قدرتی وسائل کے غیر دانشمندانہ استعمال کی بدولت یہ بتدریج اپنی افزائش نسل اور مسکن سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کو اس معاملے پر غیر سرکاری این جی اوز سے بات کرنی چائیے کیونکہ صوبے میں اتنی بڑی تعداد میں جنگلی حیات کی بقا کا مسئلہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہمارا ماحول کارخانوں، گاڑیوں اور دیگر عوامل سے پیدا ہونے والی مختلف زہریلی گیسوں کی وجہ سے بیمار اور یہاں کا ایکو سسٹم شدید متاثر ہوچکا ہے جس کے اثرات انسانوں سمیت تمام جانداروں پر برابر پڑ رہے ہیں۔
مزید پڑھیے: ڈیلٹا کی اُجڑتی ہوئی حیات
انہوں نے ایک رپورٹ Living Planet Report 2018 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 40 سالوں میں دنیا میں جنگلی اور سمندری حیات کی 60 فیصد نسل روئے زمین سے غائب ہوچکی ہے۔ سید کامران نے کہا کہ صوبے میں موثر قانون سازی، ان پر عمل درآمد اور وسائل کی فراہمی کی صورت میں ہی وائلڈ لائف جنگلی حیات کو تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔
صوبے میں محکمہ جنگلی حیات کی جانب سے چھپنے والی کتاب Distribution and Status of Wildlife of Khyber Pakhtunkhwa کے مطابق برفانی چیتے، ریچھ، انڈین پینگولین، منال تیتر، برفانی تیتر، سی سی تیتر اس صوبے کے وہ جانور ہیں جو نسل کے اعتبار سے صوبے میں پہلے سے ہی نایاب ہوچکے ہیں لیکن اب خونخوار لگڑبگڑ، صحرائی بلی، کالے تیتر وہ جانور ہیں جن کی نسل غیر محفوظ اور مسلسل خطرے سے دوچار ہوچکی ہیں۔
اسی طرح بھیڑیا، میدانی علاقوں کے چیتے، کالے چیتے، رینگنے والے جانور، آئی بیکس، چھوٹے سینگ والے ہرن، غزال ہرن، سرخی مائل بھیڑ، کستوری ہرن، ایشیائی نسل کے تیتر، خلیج چکور وہ جانور ہیں جو یہاں کے مقامی ہیں، مگر آب ہوا میں منفی اثرات کے سبب افزائش نسل کے مختلف مسائل سے دوچار ہونے کے بعد ان کے مسکن بہت حد تک ختم ہوچکے ہیں اور یہ اب یہاں کم ہی نظر آتے ہیں۔ اسی طرح دریا سندھ کے کنارے پر آباد سکھر فالکن، ہاگ ہرن وہ جانور ہیں جو ڈیم کے بننے کے بعد سے متاثر ہیں اور اپنی رہائش کے تلاش میں مسلسل انسان کے ہاتھوں شکار ہورہے ہیں جس کے سبب ان کی نسل بھی بتدریج ختم ہوتی جارہی ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی کے سدباب کے لیے بنائی جانے والی پالیسی National Climate Change Policy کے پیش نظر خیبر پختونخوا پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ ہے۔ یہاں بارشوں کی اوقات کار میں تبدیلی، درجہ حرارت میں اضافے اور انسانوں کی جانب سے قدرتی وسائل کے بے دریغ استعال کی وجہ سے یہاں کے مختلف سیکٹر جیسے زراعت، دریا اور جنگلات کے ساتھ ساتھ جنگلی حیات کے مسکن اور افزائش نسل کے اطوار بھی تبدیل ہورہے ہیں اور ان کی پیداوار اور بقا جیسے مسائل سر اٹھا رہے ہیں۔
محکمہ وائلڈ لائف میں جنگلی حیات کے حوالے سے تحفظ اور آگاہی پروگرام کے انچارج ڈاکٹر محمد نیاز کے مطابق صوبے کے جنگلات، پہاڑوں اور گلیشئر پر رہنے والے جنگلی حیات ہمارے ماحول کی بقا کے ضامن ہیں، اور ماحول کو ہر قسم کی بیماری سے پاک رکھنے کے لیے ان کا اپنا ایک مخصوص کردار ہے۔ معاشرے میں اس حوالے سے آگاہی وقت کی اہم ضرورت ہے ۔
انہوں نے کہا کہ محکمہ اس وقت صوبے کے مختلف سرکاری تعلیمی اداروں میں جانوروں اور پرندوں کے تحفظ کے بارے ایک مربوط پروگرام چلا رہی ہے۔ پروگرام کے تحت صوبے کے طول و عرض میں 200 سرکاری اسکولوں کو گرین کلب کے نام دیے گئے ہیں جہاں تعلیمی سال کے دوران بچوں کو صوبے کے ماحول میں جنگلی حیات کے کردار اور ان کی بقا کے حوالے سے درپیش نئے چیلنجز کے حوالے سے کلاسسز اور پروگرام منعقد ہوتے ہیں۔ یہ تمام اسکول زیادہ تر صوبے کے پہاڑی علاقوں میں ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے صوبے کی تقریباً 14 فیصد زمین پر 6 قومی پارک، 3 وائلڈ لائف پناہ گاہیں، 38 گیم ریزرو، 105 پبلک اور پرائیوٹ گیم ریزرو سمیت 7 وائلڈ لائف پارکس شامل ہیں جہاں کسی بھی جانور کے شکار پر مکمل پابندی کے علاوہ ماہرین جنگلی حیات کو In-situ and Ex-situ conservation practices کے ذریعے ان ختم ہوتی نسل کو محفوظ بناتے ہیں۔
اس کے علاوہ صوبے میں اس وقت 26 ایسے مقامات بھی ہیں جہاں کمیونٹی اور محکمہ کی باہمی شراکت سے صوبے کے مختلف جنگلی حیات کی سرکاری سطح پر افزائش اور ان کی دیکھ بال کی جارہی ہے تاکہ ان کی نسل کو مستقبل کے لیے محفوظ کیا جاسکے۔
پختونخوا کلائمیٹ چینج سیل میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر کام کرنے والے افسر خان کے مطابق صوبے میں ماحول سے متعلق بننے والے پہلے قانون Climate Change Policy for Khyber Pakhtunkhwa کے لیے کیے گئے پہلے سروے سے معلوم ہوا ہے کہ صوبے میں 1980ء سے 2015ء کے درمیان درجہ حرارت بڑھ چکا ہے، جس سے ایک طرف پہاڑوں پر جمی ہوئی برف گرمی کے باعث تیزی کے ساتھ پگھل رہی ہے اور اس پر رہنے والے جانور بہتر ماحول کی تلاش میں ہجرت کررہے ہیں، اور اسی ہجرت کے دوران انسان کے ہاتھوں شکار ہورہے ہیں۔
دوسری طرف جنگلات میں رہنے والے مختلف جنگلی حیات موسم میں تبدیلی سے پریشان ہیں اور ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے نئے چیلنج سے مقابلہ کررہے ہیں۔ سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایسے حالات میں جہاں موسم سازگار نہ ہوں وہاں بہت سے جانوروں کی نہ صرف افزائش نسل متاثر ہوتی ہے بلکہ ان کو مطلوبہ ماحول نہ ملنے کی وجہ سے وہ لاغر ہوکر بالاخر مرجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں اس وقت تقریباً 20 مختلف اقسام کے جانور نسل کے لحاظ سے بقا کے چیلنج سے نبرد آزما ہیں۔
یونیورسٹی آف پشاور میں شعبہ حیوانیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد عدنان کے مطابق صوبے میں ماحولیاتی تبدیلی کے باعث متاثرہ جنگلی حیات حکومت کے لیے ایک بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آئی ہے جس کے لیے فوری اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ایسے تمام جنگلی حیات جو ہمارے صوبے کے مختلف حصوں میں ماحولیاتی تبدیلی کی زد میں ہیں ان کے مسکن تک رسائی ایک محنت طلب مرحلہ ہے۔
مزید پڑھیے: ایک آدمی کی آخری برفانی تیندوے بچانے کی کاوش
انہوں نے کہا کہ جنگلی حیات کی مصنوعی طریقوں سے حفاظت اور نگہداشت سمیت افزائش نسل کو یورپی جامعات میں بطورِ مضمون پڑھایا جاتا ہے لیکن پاکستان میں بدقسمتی یہ ہے کہ جنگلات میں ڈگری حاصل کرنے والے محکمہ وائلڈ لائف میں کام کرتے ہیں اور ان کے مختلف پراجیکٹس کا حصہ بھی بنتے ہیں، اب ایسے حالات میں خاطر خواہ نتائج کی توقع بھلا کس طرح رکھی جائے؟
انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے پیش نظر جنگلی حیات کی بقا اور تحفظ پر کام کرنے کے لیے صوبائی حکومت کو دیگر ممالک کی طرح نہ صرف وسائل کا انتظام کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اسے بالکل ٹھیک جگہ لگانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ بہتر نتائج سامنے آسکیں۔ ڈاکٹر محمد عدنان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وائلڈ لائف مضمون کو جامعات میں پڑھانے کے لیے بھی فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ اس شعبے سے متعلق نہ صرف ماہرین سامنے آسکیں بلکہ مستقبل میں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے بھی کوئی حل نکالا جاسکے۔
واضح رہے کہ خیبر پختونخوا میں وائلڈ لائف سے متعلق قانون سازی موجود ہونے کے باوجود اس پر خاطرخوا عمل درآمد نہیں ہورہا ہے جس کی وجہ سے صوبے کے حیاتی نظام میں تنوع متاثر ہورہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی اور جنگلی حیات کے حوالے سے قوانین جیسے The Khyber Pakhtunkhwa Wildlife and Biodiversity (Protection, Preservation, Conservation and Management) Act, 2015 اور Climate Change Policy for Khyber Pakhtunkhwa موجود ہیں جس پر من و عن عمل کی ضرورت ہے۔
لیکن جنگلات، زراعت اور جنگلی حیات پر کام کرنے والی غیر ملکی این جی اوز کا خیال ہے کہ کلائمیٹ چینج پالیسی کو لاگو کرنے کے لیے صوبے میں کلائمیٹ چینج ڈائریکٹریٹ کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ اس وقت پختونخوا میں ماحول سے متعلق تمام معاملات محکمہ ماحولیات میں قائم چند افراد پر مشتمل ایک سیل دیکھ رہا ہے، جو صوبے کے مختلف سیکٹرز میں ماحولیات سے پیدا ہونے والے مسائل کو بروقت سمجھنے اور ان کے حل کے لیے بروقت اقدام اٹھانے کی استعداد سے عاری ہے۔ سیل کے ایک اعلیٰ افسر نے نام نہ لینے کے شرط پر بتایا کہ صوبے میں ڈائریکٹریٹ کا فیصلہ پالیسی کا حصہ تھا جس پر صوبائی حکومت 4 سال گزر جانے کے باوجود بھی کام شروع نہیں کرسکی جس کے باعث ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے مسائل مزید بڑھتے جارہے ہیں اور صوبہ اپنے قدرتی وسائل سے محروم ہوتا چلا جارہا ہے۔