لاہور ہائی کورٹ کا علی ظفر- میشا شفیع کیس 90 دن میں نمٹانے کا حکم
لاہور ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کو حکم دیا ہے کہ وہ گلوکار علی ظفر اور گلوکارہ میشا شفیع جنسی ہراساں اور ہتک عزت کا کیس 90 دن میں نمٹائے۔
اس سے قبل گزشتہ ماہ لاہور کی سیشن کورٹ نے کیس کی آخری سماعت میں کہا تھا کہ کیس کا فیصلہ 15 اپریل تک سنایا جائے گا۔
سیشن کورٹ کی جانب سے کیس کا فیصلہ 15 اپریل تک سنائے جانے کے فیصلے کے خلاف گلوکارہ میشا شفیع نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی اور جلد فیصلہ سنائے جانے کو چیلنج کیا تھا۔
میشا شفیع کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا تھا کہ سیشن کورٹ کی جانب سے 15 دن میں فیصلہ سنانا حقائق کے برعکس ہے۔
ساتھ ہی اداکارہ نے درخواست میں عدالت سے استدعا کی تھی کہ انہیں کیس میں گواہان پیش کرنے کی مہلت دی جائے۔
گلوکارہ میشا شفیع کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس مسعود جہانگیر نے کیس کی سماعت کی۔
یہ بھی پڑھیں: علی ظفر کے خلاف میڈیا پر بیان بازی کی درخواست، فیصلہ محفوظ
عدالت نے گلوکارہ کی درخواست پر سیشن کورٹ کو حکم دیا کہ وہ کیس کا فیصلہ 90 دن میں سنائے۔
عدالت کی سماعت کے بعد میشا شفیع کی قانونی ٹیم کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ لاہور ہائی کورٹ نے ماتحت عدالت کو یہ ہدایات بھی جاری کیں کہ اگر گلوکارہ کیس میں گواہان پیش کرنے کے لیے مزید مہلت مانگے تو انہیں مزید مہلت فراہم کی جائے۔
دوسری جانب علی ظفر کی وکیل امبرین قریشی نے لاہور ہائی کورٹ کی ہدایات کو اپنی کامیابی قرار دیا۔
امبرین قریشی کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے کیس کو 90 میں نمٹانے کا حکم دراصل ان کی ہی کامیابی ہے۔
انہوں نے میشا شفیع کی ٹیم پر کیس کو مزید تاخیر کا شکار کرنے کا الزام بھی عائد کیا۔
واضح رہے کہ یہ کیس سیشن کورٹ میں جاری ہے، اس کیس میں ابتدائی طور پر گلوکارہ میشا شفیع نے گلوکار علی ظفر پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔
بعد ازاں علی ظفر نے میشا شفیع کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اسی عدالت میں 100 کروڑ ہرجانے کا دعویٰ بھی دائر کیا تھا اور عدالت دونوں کی درخواست پر سماعتیں کر رہی تھیں۔
سیشن کورٹ کی جانب سے گزشتہ سماعت میں کہا گیا تھا کہ جنسی ہراساں کیے جانے اور ہرجانے کے دعوے کا فیصلہ 15 اپریل تک سنایا جائے گا، تاہم گلوکارہ میشا شفیع نے فیصلے کو جلد سنائے جانے پر اعتراض کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
اب لاہور ہائی کورٹ کی ہدایات کے تحت سیشن کورٹ کیس کو 90 دن کے اندر نمٹانے کی پابند ہے۔
علی ظفر پر جنسی ہراساں کرنے کے الزامات
گزشتہ برس 19 اپریل 2018 کو میشا شفیع نے اس مہم کے تحت ایک ٹوئٹ کے ذریعے الزام عائد کیا تھا کہ انہیں ساتھی گلوکار علی ظفر نے متعدد بار ہراساں کیا۔
ان کے مطابق علی ظفر نے ایسے وقت میں جنسی طور پر ہراساں کیا، جب وہ خود کفیل اور معروف گلوکارہ و اداکارہ کے ساتھ ساتھ 2 بچوں کی ماں بھی تھیں۔
گلوکارہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر کئی سال تک خاموشی اختیار کی تاہم اب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے، جس کی وجہ سے وہ اس معاملے کو سامنے لا رہی ہیں۔
میشا شفیع کی جانب سے الزامات عائد کیے جانے کے بعد علی ظفر نے ان تمام الزامات کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف عدالت میں جانے کا اعلان کیا تھا۔
علی ظفر کا کہنا تھا کہ انہیں عورتوں کو ہراساں کرنے کے خلاف جاری مہم ’می ٹو‘ کے بارے میں معلوم ہے اور انہیں اندازہ ہے کہ وہ کیوں اور کس لیے ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ وہ شادی شدہ اور جواں سالہ بیٹی اور بیٹے کے والد ہیں اور انہیں خواتین کی اہمیت و عزت کا اندازہ ہے۔
بعد ازاں علی ظفر نے میشا شفیع کو جھوٹا الزام لگانے کے خلاف 100 کروڑ روپے ہرجانے کا قانونی نوٹس بھجوایا۔
میشا شفیع نے علی ظفر کے قانونی نوٹس کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ علی ظفر نے اپنا لیگل نوٹس واپس نہ لیا تو وہ سول اور فوجداری قوانین کے تحت کارروائی کریں گی۔
دوسری جانب دونوں فنکاروں کے درمیان اس تنازع پر پاکستان کی شوبز انڈسٹری میں مختلف رائے نظر آئی تھی جس میں کسی نے میشا شفیع کی حمایت کی تو کسی نے علی ظفر کا ساتھ دیا۔
دونوں کا کیس گزشتہ ایک برس سے زیر سماعت ہے اور اب لاہور ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کو حکم دیا ہے کہ کیس کو آئندہ تین ماہ میں نمٹایا جائے۔