• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

حکومت کی 59 کمپنیوں کے خلاف کارروائی، کروڑوں مالیت کی ادویات ضبط

شائع April 8, 2019
حکومت نے 226 ادویات کو قبضے میں لے لیا — فوٹو: شٹر اسٹاک
حکومت نے 226 ادویات کو قبضے میں لے لیا — فوٹو: شٹر اسٹاک

اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے قومی صحت سروسز (این ایچ ایس) عامر محمود کیانی نے کہا کہ گزشتہ کچھ دنوں میں حکومت نے 59 کمپنیوں کی کروڑوں روپے مالیت کی 226 ادویات کو قبضے میں لیا ہے۔

پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کمپنیاں زیادہ سے زیادہ ریٹیل قیمتوں (ایم آر پیس) سے اضافی قیمتوں پر ادویات فروخت کررہی تھیں جس پر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان (ڈریپ) کو ان کمپنیوں کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ہم قیمتوں میں اضافے کو برداشت نہیں کریں گے کیونکہ یہ براہ راست غریب عوام پر اثر انداز کرتی ہے۔

مزید پڑھیں: ادویات کی قیمتوں میں بلاجواز اضافہ، کمپنیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم

عامر محمود کیانی کا کہنا تھا کہ ادویات کی قیمتوں میں غیر قانونی اضافے میں ملوث دوا ساز کمپنیوں پر بھاری جرمانے عائد کیے گئے اور کراچی، لاہور اور پشاور میں ان کے خلاف آپریشن میں کروڑوں روپے کی ادویات کو قبضے میں لیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے ان ادویات کی مینوفکچرنگ کو بھی روک دیا ہے جو ایم آر پیز کے مقابلے میں زائد قیمتوں پر فروخت ہورہی تھی، اس کے علاوہ نہ صرف ان کمپنیوں پر جرمانہ عائد کیا جارہا بلکہ اضافی رقم بھی ان سے وصول کی جائے گی‘۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ روزانہ 65 ہزار صحت کارڈ پرنٹ کیے گئے ہیں اور سال کے اختتام تک تقریباً 5 کروڑ 50 لاکھ افراد مفت طبی علاج کے حصول کے قابل ہوں گے۔

علاوہ ازیں ڈریپ کے صوبائی دفاتر کی جانب سے فیڈرل ڈرگ انسپیکٹرز کو تجویز دی گئی کہ وہ ادویات کی قیمتوں کی تصدیق کریں اور اگر ادویات کی قیمتیں زائد پائیں تو ڈریپ ایکٹ 2012 اور ڈرگ ایکٹ 1976 کے تحت فوری کارروائی کی جائے۔

اس حوالے سے ایک باضابطہ اعلامیے میں کہا گیا کہ ان دوا ساز کمپنیوں کے خلاف سخت کارروائی کا آغاز ہوگیا جنہوں نے غیر قانونی طور پر ادویات کی قیمتیں بڑھائیں، یہ ایکشن ان شکایات کہ بعد کیا گیا جس میں بتایا گیا تھا کہ دوا ساز کمپنیوں نے حکومت کی جانب سے مقرر کی گئی ادویات کی قیمتوں میں زائد اضافہ کیا۔

دوسری جانب فارما بیورو کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر عائشہ تیمی حق نے ڈان کو بتایا کہ بدقسمتی سے صورتحال بہت پیچیدہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ 2013 میں حکومت کی جانب سے ادویات کی قیتموں میں 15 فیصد تک اضافہ کیا گیا لیکن اگلے ہی روز اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے اس نوٹیفکیشن کی واپسی کا حکم دیا لیکن کچھ کمپنیاں عدالت چلی گئی اور انہوں نے حکم امتناع حاصل کرلیا، جس کی وجہ سے ان کمپنیوں کی ادویات کی قیمتیں بڑھ گئی تاہم 60 فیصد مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوسکا‘۔

عائشہ تیمی حق کا کہنا تھا کہ 2015 میں حکومت نے ادویات کی صنعت کے نمائندوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کے بعد ادویات کی قیمتوں کی پالیسی کا اعلان کیا لیکن ’اس پالیسی میں ہماری سفارشات کو شامل نہیں کیا گیا‘۔

یہ بھی پڑھیں: ملک بھر میں ادویات کی قیمتوں میں 15 فیصد تک اضافہ

انہوں نے کہا کہ جب شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم بنے تو اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے نئی ڈرگ پالیسی بنانے کا حکم دیا اور اسے بنایا گیا لیکن روپے کی قدر میں گراوٹ کے باوجود ادویات کی قیمتوں میں 25 فیصد اضافے کے فارما صنعت کے مطالبے کو نہیں مانا گیا اور صرف 15 فیصد اضافے کی اجازت دی گئی تھی۔

ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ ادویات کی صنعت واحد نجی شعبہ ہے جسے حکومت کی جانب سے کنٹرول کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ ادویات کی قیمتوں کے خلاف غیر ضروری اور بے بنیاد تنقید شروع کی گئی اور کچھ کیسز میں غلط اعداد و شمار کو استعمال کیا گیا۔

اس موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ کسی فارما کمپنی نے سپریم کورٹ کے احکامات اور ایس آر او کی خلاف وزری کرکے قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا۔


یہ خبر 08 اپریل 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (2) بند ہیں

suhail shaikh Apr 08, 2019 12:03pm
A very good step to control illegal rise in medicine prices.but on same time need to monitor the quality of medicines as below standard medicines are sold in market due to non check and balance in our country.
KHAN Apr 08, 2019 06:07pm
کل انٹرنیٹ پر پاکستان میں ایک دوا سرچ کرنے کے دوران معلوم ہوا کہ جن ادویہ کی قیمتیں کم(100 روپے سے کم یا پھر 100 سے 200 کے درمیان) ہیں ان کو ملک میں چند گنی چنی کم کمپنیاں تیار کررہی ہیں، دوسری جانب جن ادویہ کی قیمتیں 1000 روپے یا اس سے بھی زیادہ ہے ان کو درجنوں کمپنیاں تیار کررہی تھیں، یعنی ان دوائوں کے زیادہ برانڈ دستیاب تھے۔ عام استعمال کی ادویہ یا قیمت کم ہونے پر ان کو کم مقدار میں کیوں بنایا جارہا ہے، شاید میں اپنا نقطہ نظر سمجھانے میں کامیاب ہوا ہوں، یعنی کم قیمت ادویہ کے چند برانڈ کیوں دستیاب ہیں؟

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024