• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

’بھارت نیا منصوبہ بنارہا ہے، 16سے20اپریل کے درمیان جارحیت کا امکان ہے‘

شائع April 7, 2019
شاہ محمود قریشی نے بھارتی جارحیت پر عالمی برادری کے جانبدار رویے کی بھی نشاندہی کی— فوٹو: اے ایف پی
شاہ محمود قریشی نے بھارتی جارحیت پر عالمی برادری کے جانبدار رویے کی بھی نشاندہی کی— فوٹو: اے ایف پی

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے آنے والے دنوں میں بھارت کی جانب سے ایک اور جارحیت کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ بھارت کی جانب سے 16 سے 20 اپریل کے درمیان جارحیت کا امکان ہے۔

ملتان میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہمارے پاس معتبر انٹیلی جنس ہے کہ بھارت ایک نیا منصوبہ تیار کر رہا ہے جس کے تحت پاکستان پر ایک اور جارحیت کا امکان ہے اور 16 سے 20 اپریل تک کارروائی کی جا سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: بھارتی ایئر فورس کی دراندازی کی کوشش، پاک فضائیہ کا بروقت ردِ عمل

’میں ذمے داری سے بات کر رہا ہوں، مجھے معلوم ہے کہ میرے پاس ایک ذمے دار عہدہ ہے اور میرے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ وہ عالمی میڈیا کی زینت بنیں گے، ہمارے پاس اس وقت معتبر انٹیلی جنس ہے کہ بھارت ایک نیا منصوبہ تیار کر رہا ہے، اس کی پلاننگ ہو رہی ہے اور پاکستان پر ایک اور جارحیت کا امکان ہے اور ہماری اطلاعات کے مطابق 16 سے 20اپریل تک یہ کارروائی کی جا سکتی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے ایک نیا ناٹک رچایا جا سکتا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ جیسا ایک اور نیا واقعہ رونما کیا جا سکتا ہے اور اس کا مقصد اس حملے کی آڑ میں پاکستان پر سفارتی دباؤ بڑھانا اور اپنی عکسری کارروائی کا جواز دینا ہے۔

شاہ محمود نے کہا کہ ایک انتہائی خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہے اور اگر خدانخواستہ ایسا ہوتا ہے تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ خطے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

یہ بھی پڑھیں: پاک فضائیہ نے 2 بھارتی لڑاکا طیارے مار گرائے، پاک فوج

ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال اور مصدقہ اطلاعات کو سامنے رکھتے ہوئے دفتر خارجہ نے فی الفور فیصلہ کیا کہ سیکیورٹی کونسل کے مستقل اراکین کے سفرا کو اسلام آباد میں مدعو کریں اور آج سے 2 دن قبل سیکریٹری خارجہ نے سیکیورٹی کونسل کے پانچوں مستقل اراکین کو دفتر خارجہ میں دعوت دے کر انہیں اپنی تشویش سے آگاہ کیا کہ پاکستان کے خلاف اس طرح کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ عالمی برادری اس غیر ذمے دارانہ رویے کا نوٹس لے کر بھارت کی تنبیہ کرے کہ وہ اس راستے پر نہ چلے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ میرے علم میں یہ بھی ہے پلوامہ واقعے کے بعد جب 26 فروری کو بھارت کی جانب سے جب پاکستان کے خلاف جارحیت کی جاتی ہے، پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی جاتی ہے اور 1971 کے بعد پہلی مرتبہ لائن آف کنٹرول کو عبور کرتا ہے تو اس وقت بہت سے ذمہ دار ممالک خاموش رہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عالمی ممالک یہ جانتے تھے کہ بھارت نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی، یہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی تھی لیکن اس کے باوجود وہ خاموش رہے، ایسا نہیں کہ ہمیں خاموشی کی وجوہات کا علم نہیں، جیو پولیٹکس خاموشی کی وجہ بن رہی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی برادری کو اس خطے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے خاموش نہیں رہنا چاہیے، اگر وہ خطے میں امن و استحکام چاہتے ہیں تو وہ خاموش تماشائی نہیں رہ سکتے، انہیں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور کردار ادا کرنا ہو گا۔

وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ بالخصوص پلوامہ واقعے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں جبر و تشدد بڑھا ہے اور عالمی برادری کو اس سے صرف نذر نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو اس سے پورے جنوبی ایشیا کا امن و استحکام متاثر ہو سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں آپ کی وساطت سے یہ پیغام دینا چاہوں گا کہ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کی پر امن اور سیاسی جدوجہد کو سراہا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ان کا حق ہے کہ جس بے دردی سے انہیں کچلا جا رہا ہے اور اگر وہ آواز اٹھائیں گے تو پاکستان ان کا ساتھ دیتا رہا ہے اور ساتھ دیتا رہے گا، ہم متاثرین کے ساتھ تھے اور ہیں۔

شاہ محمود کا کہنا تھا کہ دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ بھارت نے جو پروپیگنڈا کیا اس کی قلعی کھل گئی ہے اور ہم نے نہیں بلکہ عالمی میڈیا نے اس کو بے نقاب کردیا، انہوں نے 3 باتیں برملا کہیں تاکہ مودی سرکار عوام کی ہمدردیاں حاصل کر سکے۔

مزید پڑھیں: دراندازی کے بعد بھارت کو جواب دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا، آصف غفور

انہوں نے کہا کہ بھارت نے پہلا دعویٰ کیا کہ انہوں نے پاکستان میں اسٹرائیکس کے ذریعے دہشت گرد کے 3 کیمپوں کو نشانہ بنایا اور دنیا نے دیکھا کہ کوئی دہشت گردوں کا کیمپ نہیں تھا جس کو وہ دنیا کو دکھا سکیں البتہ 4 گڑھے انہوں نے ضرور دیکھے جو ان کے بم سے پڑے تھے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کا دوسرا دعویٰ تھا کہ ہم نے کارروائی کے ذریعے 350 سے زائد دہشت گردوں کو نشانہ بنایا لیکن وہ ایک لاش تک نہیں دکھا سکے، ایک جنازے کی فوٹیج بھی دنیا کو نہیں دکھا سکے، وہ زخمیوں کو ہسپتال میں زیر علاج بھی نہیں دکھا سکے چنانچہ ان کے دوسرے دعوے کی بھی قلعی کھل گئی۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت کا تیسرا دعویٰ تھا کہ ہم نے پاکستان کی فورس کا ایک لڑاکا طیارہ ایف-16 مار گرایا ہے اور پاکستان نے اس کی تردید کی، آج دنیا اس بات کی تصدیق کر رہی ہے کہ پاکستان کا کوئی ایف-16 طیارہ متاثر نہیں ہوا۔

شاہ محمود کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم اس پروپیگنڈے اور پلوامے کے ذریعے اپنی مقبولیت میں جو اضافہ چاہتے تھے وہ تو الٹی پڑ گئی اور آج اس تشویش کا سامنے رکھتے ہوئے ہماری اطلاعات ہیں کہ وہ نئی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور یہ بہت خطرناک بات ہے اور ہمیں ایک نئی جارحیت کا خدشہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنی اس اطلاع کو شیئر کریں گے، عالمی برادری کو آگاہ کریں گے، ان کے عزائم کو بے نقاب کریں گے اور پاکستانی عوام کو باخبر رکھیں۔

دنیا جانتی ہے کہ پاکستان نے ذمہ دارانہ رویہ اپنایا اور بھارت نے غیر ذمے دارانہ رویے کا مظاہرہ کیا، پاکستان کے طرز عمل، بیانات اور گفتگو میں پختگی تھی جبکہ ان کی گفتگو اور ان کا رویہ غیر ذمہ دارانہ تھا اور آج دنیا اس بات کا اعتراف کر رہی ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ پلوامہ حملے سے پہلے اور پلوامہ حملے کے بعد لائن آف کنٹرول پر مسلسل فائرنگ جاری ہے، مسلسل اشتعال انگیزی کی جا رہی ہے اور پاکستان بہت بردباری سے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے ہماری شہری آبادی اور نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جسے لوگ جاں بحق اور زخمی ہوئے اور میں اس جارحانہ کارروائی کی پرزور مذمت کرتا ہوں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ اگر پاکستان پر کوئی جارحیت کرتا ہے، پاکستان کو نشانہ بناتا ہے تو قوم کی توقعات اور عالمی قانون کے مطابق ہمیں اپنے دفاع کا مکمل حق ہے اور ہم اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔

بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کی دفترخارجہ طلبی

بعد ازاں بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کرکے بھارتی عزائم کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا۔

ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا تھا کہ 'بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاجی مراسلہ تھما دیا گیا اور بھارت کو کسی قسم کے ایڈونچر کی صورت میں سخت تنبیہ کی گئی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'بھارت کو وارننگ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بیان کے بعد دی گئی ہے اور کہا گیاہے کہ اگر بھارت نے کسی قسم کی جارحیت کی کوشش کی تو اس کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا'۔

پلوامہ حملہ اور بھارتی جارحیت

14 فروری کو مقبوضہ کشمیر میں کار بم دھماکے کے نتیجے میں 44 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد نئی دہلی نے کسی بھی طرح کی تحقیقات کیے بغیر اس کا الزام پاکستان پر عائد کردیا تھا جسے اسلام آباد نے مسترد کردیا۔

بھارت نے الزام لگایا تھا کہ یہ حملہ کالعدم جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کی جانب سے کروایا گیا، ساتھ ہی انہوں نے اس حملے کے ماسٹر مائنڈ کی ہلاکت کا دعویٰ بھی کیا تھا۔

تاہم بغیر کسی ثبوت کے بھارت نے اس معاملے کو پاکستان سے جوڑدیا تھا اور پاکستان سے پسندیدہ ترین ملک کا درجہ واپس لے لیا تھا جبکہ پاکستان سپرلیگ کی نشریات پر بھی پابندی عائد کردی تھی۔

بھارت میں اور مقبوضہ کشمیر کے کئی علاقوں میں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمان شہریوں کے گھروں اور املاک کو نشانہ بنایا گیا تھا جس کے نتیجے میں درجنوں مسلمان خاندان محفوظ مقامات کی جانب منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے تھے۔

بعد ازاں بھارتی الزام تراشی کا جواب دیتے ہوئے پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے نئی دہلی کو ’قابلِ عمل معلومات‘ فراہم کرنے کی صورت میں تحقیقات میں تعاون کی بھی پیشکش کی تھی لیکن بھارت نے تحقیقات کی پیش کش کو ناصرف مسترد کیا بلکہ پاکستانی وزیراعظم کے بیان کو حقیقت کے برعکس قرار دیا۔

بعدازاں بھارت کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود کی جارحیت کی گئی تھی اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے پاکستان میں دہشت گرد کیمپ تباہ کر کے 350 سے زائد شدت پسندوں کو مار دیا ہے لیکن وہ اپنے اس دعوے کے برعکس کوئی بھی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے۔

اگلے دن بھارت کی جانب سے ایک مرتبہ پھر دراندازی کی کوشش کی گئی لیکن پاکستان نے بروقت جوابی کارروائی کر کے دو بھارتی جہازوں کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ ایک کو گرفتار بھی کر لیا تھا۔

بعدازاں اس بھارتی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کو جذبہ خیر سگالی کے تحت رہا کردیا گیا تھا لیکن بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیزی کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024