• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

لاہور ہائیکورٹ نے نیب کو حمزہ شہباز کی گرفتاری سے روک دیا

شائع April 6, 2019
حمزہ شہباز کو گرفتار کرنے کے لیے نیب کی ٹیم نے کئی گھنٹے تک رہائش گاہ کا محاصرہ کیا تھا—فائل فوٹو: سوشل میڈیا
حمزہ شہباز کو گرفتار کرنے کے لیے نیب کی ٹیم نے کئی گھنٹے تک رہائش گاہ کا محاصرہ کیا تھا—فائل فوٹو: سوشل میڈیا

لاہور ہائیکورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کی گرفتاری سے روک دیا۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سردار شمیم احمد نے حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت کی درخواست پر اپنے چیمبر میں سماعت کی۔

سماعت کے دوران حمزہ شہباز کی جانب سے امجد پرویز ایڈووکیٹ اور صدر لاہور ہائیکورٹ بار حفیظ الرحمٰن چوہدری پیش ہوئے اور دلائل دیے۔

وکیل شہباز شریف نے کہا کہ نیب کی ٹیم غیرقانونی طور پر حمزہ شہباز کو گرفتار کرنے کے لیے پہنچی جبکہ حمزہ شہباز نے عبوری ضمانت کی درخواست دائر رکهی ہے۔

مزید پڑھیں: نیب کا حمزہ شہباز کے گھر کا کئی گھنٹے تک محاصرہ، گرفتاری کے بغیر واپس روانہ

انہوں نے موقف اپنایا کہ اگر حمزہ شہباز گرفتار ہوتے ہیں تو عبوری ضمانت کے لیے پیش ہونے کا آئینی حق ختم ہوجائے گا۔

اس دوران چیف جسٹس کی جانب سے حمزہ شہباز کی زیر التوا عبوری ضمانت کی درخواست کا ریکارڈ طلب کیا گیا، جس پر اسسٹنٹ رجسٹرار جوڈیشل ریکارڈ لے کر عدالت عالیہ کے چیف جسٹس کے چیمبر میں پیش ہوئے۔

بعد ازاں عدالت نے ریکارڈ کو دیکھنے کے بعد حمزہ شہباز کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے نیب کو ان کی گرفتاری سے روک دیا۔

لاہور ہائیکورٹ نے اپنے عبوری حکم میں کہا کہ نیب 8 اپریل (پیر) تک حمزہ شہباز کو گرفتار نہ کرے۔

بعد ازاں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سردار شمیم احمد نے 3 صفحات پر مشتمل اپنے تحریری حکم نامے میں کہا کہ حمزہ شہباز کو 8 اپریل تک حفاظتی ضمانت دی جاتی ہے، 8 اپریل تک نیب حکام حمزہ شہباز کو گرفتار نہیں کریں گے۔

تحریری حکم نامے میں حمزہ شہباز کو 8 اپریل کو لاہور ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ کے روبرو پیش ہونے کا حکم دیا گیا۔

ہائیکورٹ نے حمزہ شہباز کے گھر پر دھاوا غیر قانونی قرار دیا، مریم اورنگزیب

دوسری جانب عدالتی فیصلے پر ترجمان مسلم لیگ (ن) مریم اورنگزیب نے کہا کہ ہائیکورٹ کے فیصلے پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔

نیب کی ٹیم نے وزیر اعظم کے کہنے پر غیر قانونی طور پر دھاوا بولا، تاہم ہم نے وزیر اعظم کی ریاستی دہشت گردی کے اقدامات کو قانونی طور پر چیلنج کیا۔

میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز سمجھانے کے باوجود نیب اور حکومتی گٹھ جوڑ کے بعد آج پھر نیب ٹیم آئی اور ریاستی دہشت گردی کے ذریعے کارکنان پر تشدد کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ احتساب عدالت نے بھی نیب کو پولیس فورس فراہمی کی درخواست مسترد کی جبکہ لاہور ہائیکورٹ نے حمزہ شہباز کے گھر پر دھاوے کو غیر قانونی قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف کے اہل خانہ کے خلاف مبینہ منی لانڈرنگ کے ثبوت ملنے کا انکشاف

اپنی گفتگو کے دوران مریم اورنگزیب نے وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کے موبائل فون کا فزانک کروانے کا مطالبہ کیا۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ شہزاد اکبر اور ڈی جی نیب لاہور رابطے میں رہتے ہیں اور وہ اکثر وزیراعظم کے احکامات پاس کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ نیب نے بغیر وارنٹ کے چھاپہ مارا اور ان کی اپنی عدالت نے ہی ان کے موقف کو مسترد کردیا، نیب کو آج شرم سے ڈوب مرنا چاہیے۔

وزیر اعظم پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عمران خان پارلیمنٹ میں ایک منٹ آنا پسند نہیں کرتے یہ ان کا آمرانہ طرز عمل ہے۔

خیال رہے کہ نیب کی ٹیم کی آج (6 اپریل) کی صبح ایک مرتبہ پھر آمدن سے زائد اثاثہ جات اور مبینہ منی لانڈرنگ کیس میں حمزہ شہباز کی گرفتاری کے لیے ماڈل ٹاؤن کی رہائش گاہ پر پہنچی تھی اور گھر کا محاصرہ کرلیا تھا۔

لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں شہباز شریف کی رہائش گاہ 96 ایچ میں موجود حمزہ شہباز کی گرفتاری کے لیے نیب کا یہ دوسرا چھاپہ تھا، تاہم وہ آج کے چھاپے کے دوران گھر کے اندر داخل نہ ہوسکے۔

اس سے قبل 5 اپریل کو نیب کی ٹیم نے لاہور میں حمزہ شہباز کی گرفتاری کے لیے چھاپہ مارا تھا لیکن وہ انہیں گرفتار کرنے میں ناکام رہے تھے۔

تاہم نیب کے دوسرے چھاپے کی اطلاع ملتے ہیں مسلم لیگ (ن) کے کارکنان کی بڑی تعداد شہباز شریف کے گھر پہنچنا شروع ہوگئی تھی اور اس دوران پولیس اور لیگی کارکنان میں جھڑپ بھی ہوئی تھی۔

اس دوران حالات کے پیش نظر پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری کو بھی طلب کیا گیا جبکہ کچھ لیگی کارکنان پولیس کی جانب سے کھڑی کی گئی رکاوٹیں توڑ کر شہباز شریف کی رہائش گاہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔

تمام صورتحال کے دوران نیب کی ٹیم کی سربراہی کرنے والے ایڈیشنل ڈائریکٹر چوہدری اصغر اور حمزہ شہباز کے قانونی مشیر عطا تارڑ کے درمیان گرفتاری کے معاملے پر تکرار بھی ہوئی۔

چوہدری اصغر کی جانب سے کہا گیا کہ ان کے پاس حمزہ شہباز کی گرفتاری کے وارنٹ موجود ہیں اور وہ آج حمزہ شہباز کو گرفتار کرکے ہی جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ میری حمزہ شہباز سے درخواست ہے کہ وہ دیواروں کے پیچھے نہ چھپیں اور گھر سے باہر آئیں تاکہ قانونی طریقے سے ان کی گرفتاری عمل میں لائی جاسکے۔

تاہم حمزہ شہباز کے قانونی مشیر نے نیب کے وارنٹ کو غیر قانونی قرار دیا اور کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ حمزہ شہباز کی گرفتاری سے 10 روز قبل انہیں آگاہ کرنا ہوگا۔

مزید پڑھیں: ‘چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا، آج محسوس ہوا ہم دہشتگرد ہیں‘

قبل ازیں حمزہ شہباز کی گرفتاری کے لیے نیب کی جانب سے پراسیکیورٹر وارث علی جنجوعہ نے احتساب عدالت میں درخواست دائر کی تھی کہ انہیں پولیس کے ہمراہ حمزہ شہباز کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے۔

تاہم احتساب عدالت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ کرمنل پروسیجر کوڈ کے چیپٹر 5 کی روشنی میں ملزم کی گرفتاری کے طریقہ کار کو تفصیل سے واضح کیا گیا ہے اور اس کا اطلاق تمام طرح کی کارروائی پر ہوتا ہے۔

عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ اس معاملے میں پہلے سے جاری وارنٹ گرفتاری کے حوالے سے اس وقت تک کوئی خصوصی ہدایات کی ضرورت نہیں، جب تک کوئی متعلقہ انتظامیہ اسے معطل نہ کرے۔

واضح رہے کہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی جانب سے حمزہ شہباز کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024