سعودی عرب کے پہلے مبینہ جوہری پلانٹ کی سیٹلائٹ تصاویر سامنے آگئیں
امریکی خبررساں ادارے ’ بلومبرگ‘ نے ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ سعودی عرب کے پہلے مبینہ جوہری پلانٹ کی تعمیر آخری مراحل میں ہے۔
بلومبرگ کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گوگل کی سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب کا پہلا مبینہ جوہری پلانٹ تیاری کے آخری مراحل ہے لیکن سعودی عرب کی جانب سے بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کے بغیر جوہری ٹیکنالوجی کے استعمال پر خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔
ادارے کی رپورٹ کے مطابق گوگل ارتھ کی جانب سے شائع کی گئی تصاویر کے مطابق یہ مبینہ جوہری پلانٹ سعودی دارالحکومت ریاض کے جنوب مغربی علاقے میں قائم شاہ عبدالعزیز سائنس و ٹیکنالوجی میں تعمیر کیا جارہا ہے۔
گوگل کی جانب سے جاری تصاویر میں مبینہ جوہری پلانٹ کی تعمیر کی تصدیق کی گئی ہے، اس میں ایک کنٹینر دکھایا گیا ہے جس میں جوہری ایندھن رکھا جائےگا۔
بلومبرگ کے مطابق مبینہ جوہری پلانٹ کی تیاری جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے روک تھام کے لیے کام کرنے والے ماہرین کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ سعودی عرب نے اب تک دیگر جوہری طاقتوں کی طرح کسی عالمی قوانین کے معاہدے پر دستخط نہیں کیے جس سے اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ سویلین جوہری پروگرام ہتھیار بنانے کے لیے استعمال نہیں ہورہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ویانا میں بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ساتھ نگرانی کے انتظامات ہونے سے پہلے جوہری ایندھن فراہم کنندگان یونٹ کو سپلائی نہیں دے سکتے۔
مزید پڑھیں: امریکا کی سعودی عرب کیلئے جوہری ٹیکنالوجی کی خفیہ منظوری
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے ) کے سابق ڈائریکٹر رابرٹ کیلی نے کہا کہ اس بات کے بہت زیادہ امکانات ہیں کہ ان تصاویر میں ملک کے پہلے جوہری پلانٹ کو دکھایا گیا ہے۔
’پلانٹ کا مقصد عالمی معاہدوں کے مطابق پرامن سائنسی تحقیق ہے‘
سعودی عرب کے وزیر توانائی نے ایک بیان میں کہا کہ اس پلانٹ کا مقصد بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق پرامن سائنسی، تحقیق، تعلیمی اور تربیتی سرگرمیوں کا آغاز کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ پلانٹ شفافیت کے ساتھ قائم کیا گیا ہے کہ اور سعودی عرب نے جوہری عدم پھیلاؤ کے تمام بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔
وزیر توانائی نے مزید کہا کہ اس پلانٹ کا دورہ کیا جاسکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سعودی عرب نے جوہری پلانٹ سے متعلق مقاصد بیان کیے ہیں لیکن اس حوالے سے معلومات انتہائی کم ہیں کہ اس پلانٹ میں کس قسم کی مانیٹرنگ کا ادارہ ہے۔
جوہری ہتھیاروں کی روک تھام سے متعلق کام کرنے والے ماہرین سعودی عرب کے جوہری کام کا جائزہ لے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب بیلسٹک میزائل تیار کررہا ہے، امریکی جوہری ماہرین
کچھ عرصہ قبل سعودی ولی عہد کی جانب سے جاری بیان نے جوہری ہتھیاروں کی نگرانی کرنے والے اداروں میں تشویش پیدا کردی تھی کہ ان کے پاس سعودی عرب کے مقابلے میں ایران میں قائم جوہری تنصیبات تک رسائی کی صلاحیت زیادہ ہے۔
سعودی عرب کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے چاہئیں یا نہیں؟
جوہری عدم پھیلاؤ سے متعلق سابق سفارتکار اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی کی محقق شارون اسکواسونی نے کہا کہ ’ واشنگٹن میں اس وقت یہ بات زیر بحث ہے کہ سعودی عرب کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے چاہئیں یا نہیں۔
امریکی حکومت کے ادارہ احتساب نے رواں ہفتے تحقیقات میں شمولیت اختیار کی تھی اور کہا تھا کہ وفاقی ادارے کو سعودی عرب میں کام کی خواہشمند امریکی کمپنیوں کے کام کا جائزہ لینے کا کہا گیا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق ارجنٹائن کی سرکاری کمپنی آئی این وی اے پی ایس ای نے سعودی عرب کو یہ یونٹ فروخت کیا تھا جسے رواں برس کے آخر میں شروع کیے جانے کا منصوبہ ہے۔
رابرٹ کیلی کے مطابق یہ کنٹینر 10میٹر اونچا ہے جس کا قطر 2.7 میٹر ہے جو کہ دیگر ریسرچ ری ایکٹر کی خصوصیات جیسا ہے۔
انہوں نے اس حوالے سے زامل انڈسٹریل انویسٹمنٹ کارپوریشن کی جانب سے شائع کی گئی تصاویر بھی استعمال کیں۔
یہ کنٹینر سعودی عرب میں بنایا گیا تھا، اس میں یورینیم کا ایندھن رکھا جائے گا۔
سعودی عرب نے اس وقت آئی اے ای اے کے اسمال کوانٹیٹیز پروٹوکول پر دستخط کیے ہیں، یہ قوانین اس وقت ختم ہوجائیں گے جب اسے جوہری ایندھن کی ضرورت ہوگی۔
ریاض نے اب تک ایسے قوانین اور مراحل پر عملدرآمد نہیں کیا جس سے جوہری انسپکٹرز کو ان تنصیبات تک رسائی کی اجازت ملے گی۔
آئی ای اے ای میں ارجنٹائن کے مبصر رافیل ماریانو نے کہا کہ ’سعودی عرب کو یونٹ کو ایندھن فراہم کرنے سے قبل جامع معاہدے اور دیگر انتظامات مکمل کرنے ہوں گے‘۔
خیال رہے کہ چند روز قبل برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز نے ایک رپورٹ میں امریکی سیکریٹری برائے توانائی ریک پیری کی جانب سے جوہری کمپنیوں کو سعودی عرب کو جوہری ٹیکنالوجی کی فروخت اور اس میں تعاون کی اجازت کی 6 خفیہ منطوریاں دینے کا انکشاف کیا تھا۔
اس معاہدے کی معلومات سے باخبر ذرائع نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ ریک پیری کی جانب سے دی گئی منظوری کو پارٹ 810 اجازت نامہ کہا جارہا ہے، جس کے تحت کمپنیوں کو معاہدے سے قبل جوہری توانائی پر ابتدائی کام کرنے کی اجازت ہوگی لیکن پلانٹ کے لیے آلات بھیجنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
اس سے قبل رواں برس کے آغاز میں امریکا کے جوہری ماہرین نے سیٹیلائٹ شواہد کی بنیاد پر شبہ ظاہر کیا تھا کہ سعودی عرب بیلسٹک میزائل کی تیاری میں مصروف ہے۔
امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر مونٹری میں واقع مِڈل بری انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے میزائل سازی کے ماہر جیفری لوئس کا کہنا تھا کہ میزائل کی تیاری میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں دلچسپی کے ساتھ جوڑا جاسکتا ہے.
خیال رہے کہ گزشتہ برس سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا تھا کہ اگر ایران نےجوہری ہتھیار بنائے تو سعودی عرب بھی بنائے گا۔