• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

بنی گالا تجاوزات کیس: اسلام آباد کی حالت کراچی اور لاہور سے بدتر ہے، سپریم کورٹ

شائع April 4, 2019
اسلام آباد کو وفاقی دارالحکومت بنانے کا مقصد فوت ہوگیا ہے—فائل فوٹو: قلب علی
اسلام آباد کو وفاقی دارالحکومت بنانے کا مقصد فوت ہوگیا ہے—فائل فوٹو: قلب علی

سپریم کورٹ کے جسٹس گلزار احمد نے بنی گالا تجاوزات کیس میں چیئرمین سی ڈی اے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد کو وفاقی دارالحکومت بنانے کا مقصد فوت ہوگیا ہے، یہاں ندیاں، نالے گندگی کا ڈھیر بن چکے ہیں، آپ کی کارکردگی مایوس کن ہے بہتر ہے آپ کہیں اور تشریف لے جائیں۔

جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے بنی گالا تجاوزات سے متعلق سماعت کی، اس دوران عدالت عظمیٰ نے کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے چیئرمین کو طلب کیا۔

ساتھ ہی جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ کیا سی ڈی اے عامر علی احمد کو عدالت نے جگانا ہے، سی ڈی اے اپنا کام کیوں نہیں کرتی، عدالت حکم پاس کر رہی ہے لیکن ان پر سی ڈی اے عمل نہیں کرتی۔

مزید پڑھیں: بنی گالہ کیس: عمران خان سب سے پہلے ریگولرائزیشن کرائیں، چیف جسٹس

اس دوران سماعت میں کچھ دیر کا وقفہ کردیا گیا، جس کے بعد جب سماعت کا آغاز ہوا تو چیئرمین سی ڈی اے عدالت میں پیش ہوئے۔

جس پر جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ چیئرمین سی ڈی اے بتائیں عدالتی حکم پر کیا عملدرآمد کیا آپ نے؟ اس پر چیئرمین نے جواب دیا کہ مکمل طور پر عدالتی حکم پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔

سی ڈی اے چیئرمین کے جواب پر جسٹس گلزار احمد نے سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ اگر آپ اس قابل نہیں ہیں تو یہاں بیٹھے کیوں ہیں، اب تک کیا کیا ہے آپ نے، آنکھیں بند کر کے بیٹھے ہیں، کیا آپ پورے اسلام آباد کو کچی آبادی بنانا چاہتے ہیں۔

جسٹس گلزار احمد نےکہا کہ نئے ایئرپورٹ پر جاکر دیکھیں وہاں کیا ہورہا ہے، مجھے لگا یہ صورتحال صرف کراچی میں ہے، اسلام آباد کو وفاقی دارالحکومت بنانے کا مقصد ہی فوت ہو گیا ہے، آپ نے پہاڑوں کے پہاڑ اور جنگلوں کے جنگل ختم کردیے ہیں۔

اظہار برہمی کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ مارگلہ کو تو سپریم کورٹ نے بچا کر رکھا ہوا ہے، ندیاں، نالے گندگی کے ڈھیر بن چکے ہیں، آپ نے راول جھیل کا کیا حال کر دیا ہے، آپ کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے، اس سے بہتر ہے آپ کسی اور جگہ تشریف لے جائیں۔

جسٹس گلزار احمد نے سی ڈی اے چیئرمین سے استفسار کیا کہ آپ کو پلاٹ تو مل گیا ہوگا، اس پر عامر علی احمد نے کہا کہ میں نے کوئی پلاٹ نہیں لیا، اگر آپ مجھے موقع دیں تو کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔

اس پر جسٹس گلزار نے پھر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین سی ڈی اے آپ ہمیں لالی پاپ نہ دیں، میں جب سے اسلام آباد آیا ہوں دیکھ رہا ہوں آپ سے کشمیر ہائی وے مکمل نہیں ہوا، کشمیر ہائی وے پر اسٹرکچر کو ادھورا چھوڑ رکھا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کبھی یہ نہیں سوچا کہ ان جگہوں پر جرائم پیشہ افراد پناہ لے سکتے ہیں، ان جگہوں پر بھنگ پینے والے اور چرسی بیٹھے ہوتے ہیں، کیا یہ آپ کی کارکردگی ہے، آپ کا بس ایک ہی کام ہے پلاٹ بنا کر بیچتے رہو اور کچی آبادیاں بناتے رہو، میں تو حیران ہوتا ہوں کیا یہ اسلام آباد ہے۔

چیئرمین سی ڈٰی اے سے جسٹس گلزار نے مکالمہ کیا کہ معذرت کے ساتھ آپ کے شہر کی حالت کراچی اور لاہور سے بھی بدتر ہے، آپ بتائیں کیا کرنے جا رہے ہیں، اس پر عامر علی احمد نے کہا کہ انشااللہ، جس پر جسٹس گلزار نے پوچھا کہ انشااللہ کا کیا مطلب ہے۔

جسٹس گلزار نے کہا کہ دنیا کے بہت سے دارالحکومت دیکھے ہیں وہاں ہر چیز بہترین ہوتی ہے، آپ کہتے ہیں تو سی ڈی اے اور مونسپل کارپوریشن اسلام آباد کو تحلیل کر دیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بنی گالا کیس: سروے جنرل آفس کے سربراہ سپریم کورٹ میں طلب

ساتھ ہی جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ مسئلہ یہ ہے کہ آپ اس سارے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے، ہر کمرشل اور رہائشی منصوبے میں فضلہ ٹھکانے لگانے کا کوئی اپنا انتظام بھی ہونا چاہیے۔

عدالتی ریمارکس اور استفسار پر چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ بدقسمتی سے اسلام آباد میں کوئی مستقل ڈمپنگ سائٹ نہیں، سنگجانی کے علاقے میں مستقل ڈمپنگ سائٹ کا انتخاب کیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ آج ماحولیاتی تحفظ کی ٹیم سنگجانی سائٹ کا دورہ کرے گی، جس پر جسٹس گلزار نے پوچھا کہ ایک ٹائم لائن بتائیں کب تک یہ عمل مکمل ہوگا، اس پر چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ ایک ماہ میں منصوبے کی تمام رکاوٹیں دور کر لیں گے۔

اس پر جسٹس گلزار نے استفسار کیا کہ کیا ایک ماہ میں یہ سب ممکن ہوگا؟ جس پر چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ عدالت مہلت دے ایک ماہ میں پیش رفت دیں گے۔

بعد ازاں عدالت نے چیئرمین سی ڈی اے کو مہلت دیتے ہوئے سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024