بھارت، کشمیری خاتون کو واپس پاکستان بھیجنے سے انکاری
بھارتی حکام مقبوضہ کشمیر میں پھنسی آزاد کشمیر کی رہائشی خاتون کی سرحد واپسی سے متعلق اپنے ہی نوٹی فکیشن سے مکر گئے۔
نئی دہلی نے مقبوضہ کشمیر میں پھنسی 27 سالہ کبریٰ گیلانی کی پاکستان واپسی کے لیے نوٹی فکیشن جاری کیا تھا۔
نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ کبریٰ گیلانی کی واپسی اٹاری بارڈر سے ہوگی۔
خیال رہے کہ کبریٰ گیلانی کی شادی مقبوضہ کشمیر کے رہائشی محمد الطاف رتھڑ سے ہوئی تھی، تاہم طلاق کے بعد وہ نومبر 2018 سے وطن واپسی کی کوشش کر رہی ہیں۔
بھارتی وزارت خارجہ نے 27 فروری کو نئی دہلی میں قائم پاکستانی سفارتخانے کو معاملہ متعلقہ حکام کے سامنے اٹھانے کی ہدایت کی تھی۔
سماجی رکن انصار برنی نے مذکورہ معاملے پر وزارت خارجہ کی توجہ دلائی اور صدر مملکت عارف علوی اور آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کے دفاتر سے کبریٰ گیلانی کی واپسی کے لیے ضروری اقدامات اٹھانے کی استدعا کی تھی۔
کبریٰ گیلانی پاکستان ہائی کمیشن سے اپنے سفری دستاویزات لینے کے لیے سری نگر سے نئی دہلی یکم اپریل کو پہنچی تھیں، تاکہ سرحد واپسی ممکن ہو سکے۔
اسی دن نئی دہلی میں موجود پاکستانی حکام نے بھارتی امیگریشن افسر اور اٹاری میں ڈپٹی کمشنر کسٹمز کو مطلع کیا کہ کبریٰ گیلانی 3 اپریل کو پاکستان کا سفر کریں گی، اس لیے اٹاری بارڈر پر ان کی واپسی کے انتظامات کیے جائیں۔
کبریٰ گیلانی بدھ کی صبح 10 بجے اٹاری بارڈر پر پہنچیں تو بھارتی حکام نے انہیں سرحد پار کرنے کی اجازت نہیں دی اور واپس روانہ کردیا۔
یہ بھی پڑھیں: 'بھارت مقبوضہ کشمیر میں زمینی حقائق بدلنے کی کوشش کررہا ہے'
بعد ازاں کبریٰ گیلانی نے سماجی رکن انصار برنی کو آڈیو پیغام میں کہا کہ ’سر، انہوں (بھارتیوں) نے مجھے واپس بھیج دیا، کچھ بھی نہیں ہوا، میں نے اپنی پوری کوشش کی لیکن انہوں نے میری بات نہیں سنی، سر آپ مجھے بتائیں کہ اب میں کیا کروں اور کہاں جاؤں‘۔
دوسری جانب انصار برنی نے بھارتی رویے کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے شدید احتجاج کیا اور کہا کہ ’کبریٰ گیلانی کشمیر میں پیدا ہوئیں اور کشمیر کے ایک حصے سے نکل کر دوسرے حصے میں داخل ہونے کی خواہش مند ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’کبریٰ گیلانی کے پاس پاکستانی ہائی کمیشن کی جانب سے جاری تمام سفری دستاویزات موجود ہیں جس کے بعد بھارتی حکام کے پاس کوئی جواز نہیں کہ وہ اٹاری بارڈر سے کبریٰ کو واپسی سے انکار کردیں‘۔
یہ بھی پڑھیں: کشمیر میں ریموٹ کنٹرول دھماکا، 44 بھارتی فوجی ہلاک
انصار برنی نے کہا کہ ’بھارتی حکام کا رویہ بہت درد ناک اور قابل مذمت ہے‘۔
کبریٰ گیلانی کی والدہ پروین کاظمی نے نمائندہ ڈان کو بتایا کہ ’میں اپنی بیٹی کی واپسی پر پرجوش تھی لیکن بھارتی حکام نے میری ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا‘۔
انہوں نے بتایا کہ ’میری بیٹی تو خود بھارتی مقامات سے ناواقف ہے، وہ کس طرح ان حالات کا سامنا کرے گی؟ وہ اٹاری بارڈر تک دوبارہ واپس آنے کے لیے اخراجات کہاں سے لائے گی‘۔
انصار برنی نے بتایا کہ ’ہم مقبوضہ کشمیر یا بھارت میں کبریٰ گیلانی کی مدعیت میں انصاف کے لیے پٹیشن دائر کریں گے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم کبریٰ گیلانی اور دیگر کو بے سہارا نہیں چھوڑیں گے‘۔
سرحد پار شادی
کبریٰ گیلانی نے مارچ 2010 میں 19سال کی عمر میں بھارت کے زیر تسلط کشمیر کے علاقے کوکرناگ کے رہائشی محمد الطاف رتھڑ سے شادی کی تھی۔ الطاف رتھڑ ان ہزاروں کشمیریوں میں سے تھے جنہوں نے 90 کی دہائی میں لائن آف کنٹرول پار کر کے آزاد کشمیر میں پناہ لی تھی۔
کشمیر میں عمر عبداللہ حکومت کی جانب سے سابق حریت پسندوں اور ان کے اہلخانہ کی بحالی کی ’نام نہاد پالیسی‘ کے اعلان کے بعد 2014 میں یہ جوڑا نیپال کے ذریعے وہیں منتقل ہو گیا۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: بھارتی فوج کے کیمپ پر حملہ، 3 ہلاک
البتہ شادی کے آٹھ سال بعد الطاف نے اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے عاری ہونے کا الزام لگا کر کبریٰ کو 30 نومبر کو طلاق دے دی تھی اور اس کے بعد سے وہ اپنے گزر بسر کے لیے دوسروں کے گھروں میں ملازمت کرنے پر مجبور ہیں۔
ان کی مشکل زندگی کی یہ داستان اس وقت سامنے آئی جب گزشتہ ماہ انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پیغام پوسٹ کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں حکام نہ ہی انہیں مستقل رہائش کا سرٹیفکیٹ دے رہے ہیں اور نہ ہی اپنے اہل خانہ سے دوبارہ ملنے کے لیے پاکستان واپسی کی اجازت دے رہے ہیں۔
لائن آف کنٹرول کے پار سے آنے والی اطلاعات کے مطابق نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن نے انہیں نیا پاسپورٹ جاری کردیا ہے، کیونکہ اگست 2018 میں کبریٰ کے پاسپورٹ کی مدت ختم ہو گئی تھی لیکن اس کے باوجود جب وہ کنٹرول لائن پر دوبارہ گئیں تو انہیں بھارتی حکام نے مبینہ طور پر ’نامکمل دستاویزات‘ کا بہانہ بنا کر واپس بھیج دیا۔
تبصرے (2) بند ہیں