• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am

سانحہ بلدیہ فیکٹری، اہم ترین چشم دید گواہ نے ملزم زبیر چریا کو شناخت کرلیا

شائع April 2, 2019
فیکٹری میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں 250 سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے تھے—تصویر: اے ایف پی/فائل
فیکٹری میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں 250 سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے تھے—تصویر: اے ایف پی/فائل

کراچی کی بلدیہ فیکٹری میں لگنے والی آگ کے مقدمے میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، کیس کی سماعت کے دوران ایک اہم ترین گواہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہوا اور واقعے میں ملوث ایک ملزم زبیر عرف چریا کو شناخت کرلیا۔

واضح رہے کہ 11 ستمبر 2012 کو کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں قائم کپڑے کی فیکٹری میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں 250 سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔

انسدادِ دہشت گردی عدالت میں ہونے والی سماعت میں اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر ساجد محبوب شیخ نے مقدمے کے چشم دید گواہ کو عدالت میں پیش کیا۔

سیکیورٹی خدشات کی بنا پر گواہ کا نام صیغہ راز میں رکھا گیا تھا جو وقوعے کے بعد سے جان کو لاحق خطرات کے باعث روپوش تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بلدیہ فیکٹری مقدمے میں 2 گواہوں کا ملزم کے خلاف حلفیہ بیان

عینی شاہد نے عدالت میں گواہی دیتے ہوئے بتایا کہ وقوعہ والے روز وہ فیکٹری میں موجود تھا۔

اپنے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ پہلے زبیر چریا نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ گودام کے واش روم کے باہر چرس پی اس کے بعد میرے سامنے اپنی جیب سے تھیلیاں نکال کر گودام میں موجود کپڑوں پر پھینکیں۔

یہی عمل اس نے دوسری منزل پر بھی کیا اور آگ لگنے پر زبیر چریا مسکراتا رہا، گواہ کا کہنا تھا کہ وہ زبیر چریا کے دیگر ساتھیوں کو بھی شناخت کرسکتا ہے۔

جس پر ملزمان زبیر چریا اور عبد الرحمٰن عرف بھولا کے وکیل نے عینی شاہد کے بیان پر جرح کرتے ہوئے پوچھا کہ سانحہ کے اتنے عرصے بعد بیان کیوں قلمبند کرایا؟

گوہ نے بتایا کہ مجھے جان کا خطرہ تھا اس لیئے پنجاب چلا گیا تھا اب مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے بلا کر تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری اٹھائی ہے اس لیے آکر بیان دیا۔

مزید پڑھیں: 'جے آئی ٹی میں بلدیہ فیکٹری آتشزدگی پر صرف ایک پیرگراف'

عینی شاہد نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے روبرو دفعہ 164 کے تحت بھی اپنا بیان یکارڈ کروایا۔

بعدازاں ملزمان کے وکلا کے عینی شاہد کے بیان پر جرح مکمل کرنے کے بعد عدالت نے آئندہ سماعت پر بیان کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کو نوٹس جاری کردیے۔

اس کے ساتھ عدالت نے مزید کارروائی 3 اپریل تک کے لیے ملتوی کردی۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ بلدیہ کے ملزم رؤف صدیقی، عبدالرحٰمن، زبیر پر فردِ جرم عائد

قبل ازیں 10 فروری کو ہونے والی سماعت میں 2 گواہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہوئے اور واقعے میں ملوث ایک ملزم زبیر عرف چریا کے خلاف حلفیہ بیان دیا تھا۔

سانحہ بلدیہ فیکٹری

11 ستمبر 2012 کو کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں قائم کپڑے کی فیکٹری میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں 250 سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔

سانحے کی تحقیقات کے لیے رینجرز اور پولیس سمیت دیگر اداروں کے افسران پر مشتمل 9 رکنی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی تھی، جس نے اپنی رپورٹ سندھ ہائی کورٹ میں جمع کرائی تھی۔

سانحہ بلدیہ ٹاؤن کیس میں فروری 2015 میں ڈرامائی موڑ اس وقت آیا جب رینجرز کی جانب سے سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں ایم کیو ایم کو اس واقعے میں ملوث قرار دیا گیا۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما رؤف صدیقی، عبدالرحمٰن عرف بھولا اور زبیر عرف چریا سمیت 11 ملزمان کو فیکٹری میں آگ لگانے کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔

پراسیکیوشن کے مطابق مشتبہ ملزمان نے اس وقت کے ایم کیو ایم کی کراچی میں تنظیمی کمیٹی کے سربراہ حماد صدیقی کی ہدایات پر عمل کیا کیونکہ فیکٹری کے مالکان نے بھتے کی رقم کی ادائیگی سے انکار کردیا تھا۔

ابتدائی طور پر ثبوتوں کی عدم موجودگی پر پولیس نے زبیر چریا کو رہا کردیا تھا البتہ عبدالرحمٰن عرف بھولا کی جانب سے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے قلمبند کرائے گئے بیان میں انہوں نے زبیر کو بھی شریک جرم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے زبیر اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ فیکٹری کو آگ لگانے کا کام انجام دیا جس کے بعد پولیس نے زبیر کو دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔

مزید پڑھیں: سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے مرکزی ملزم حماد صدیقی پاکستان کے حوالے

پراسیکیوشن نے مقدمے میں 670 گواہوں کی فہرست مرتب کی تھی لیکن بعد میں 300 کا بیان نہ لینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر کے مطابق اب تک عدالت کی جانب سے 330 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے جا چکے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024