قومی ٹیم 0-5 سے کیوں ہاری؟ کہاں کہاں غلطیاں ہوئی؟
گزشتہ 4 دہائیوں میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ پاکستانی ٹیم ون ڈے کرکٹ میں کسی کے ہاتھوں 0-5 سے ہوم سیریز ہاری ہو۔ یہ بدترین شکست ٹیم کے نصیب میں تب آئی ہے جب ورلڈ کپ صرف 2 مہینے کے فاصلے پر ہے۔ درحقیقت، آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں ناکامی اسی وقت مقدر بن گئی تھی جب پاکستان کرکٹ کے کرتا دھرتاؤں نے تمام اہم کھلاڑیوں کو آرام کرانے اور bench strength آزمانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد جو نتائج سامنے آئے ہیں، وہ خلافِ توقع تو نہیں لیکن ورلڈ کپ سے پہلے ایک بڑا دھچکا ضرور ہیں۔
آسٹریلیا کے دورہ پاکستان، جو اصل میں دورہ متحدہ عرب امارات ہی تھا، کا پہلا مرحلہ گزشتہ سال ستمبر و اکتوبر میں ہوا تھا، جس میں ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی سیریز کھیلی گئی تھیں۔ قومی ٹیم نے دونوں میں زبردست کامیابی حاصل کی تھی لیکن باقی رہ جانے والی ون ڈے سیریز میں ٹیم اتنی بُری طرح ناکام ہوگی؟ یہ کسی نے سوچا بھی نہ ہوگا۔
مزید پڑھیے: وائٹ واش کے باوجود مکی آرتھر ٹیم کی کارکردگی سے مطمئن
پاکستان سپر لیگ کے چوتھے سیزن کے بعد اور ورلڈ کپ کے لیے انگلینڈ روانگی سے قبل ہونے والی اس سیریز میں نہ کپتان سرفراز احمد تھے اور نہ ہی بابر اعظم، فخر زمان، شاداب خان، حسن علی اور محمد حفیظ۔ بلکہ قائم مقام کپتان شعیب ملک بھی آخری 2 میچز میں نظر نہ آئے اور آل راؤنڈر فہیم اشرف بھی ابتدائی 2 مقابلے ہی کھیلے۔
لیکن اس کے باوجود بھی منتخب شدہ کھلاڑیوں سے اتنی بُری کارکردگی متوقع نہیں تھی۔ فخر زمان کی جگہ شان مسعود موجود تھے، سرفراز کی جگہ محمد رضوان نے وکٹ کیپنگ سنبھالی اور 2 سنچریاں بنا کر کسی حد تک اپنے انتخاب کو درست ثابت بھی کیا۔ پھر شاداب خان کی جگہ تجربہ کار یاسر شاہ کا انتخاب کیا گیا تھا اور بابر اعظم کی جگہ عمر اکمل اور محمد حفیظ کی جگہ حارث سہیل نے سنبھالی۔ اس کے باوجود تمام میچز میں شکست؟
دراصل پاکستان نے bench strength آزمانے کے لیے بہت غلط وقت کا انتخاب کیا۔ یہ کام ورلڈ کپ سے ایک ڈیڑھ سال قبل شروع ہونا چاہیے تھا لیکن اسے آخری وقت تک کے لیے ٹالا گیا اور آزمایا بھی گیا تو کس کے خلاف؟ آسٹریلیا کے مقابلے میں جو ابھی بھارت کو اسی کی سرزمین پر شکست دے کر آیا تھا۔ یوں سیریز کے لیے کھلاڑیوں کا انتخاب ہی وہ پہلی غلطی تھی کہ جس نے پاکستانی شکست کی بنیاد رکھی۔
دوسری وجہ تھی آسٹریلیا سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی ناقص منصوبہ بندی بلکہ یہ کہیں تو بہتر ہوگا کہ جیتنے کے لیے آزمائے جانے والے وہی گھسے پٹے پرانے طریقے جن کی وجہ سے پاکستان کو شکست ہوتی رہتی ہے۔
وہ زمانے اور تھے جب ایک روزہ کرکٹ کا مزاج مختلف تھا اور پاکستان اپنے باؤلرز کے سہارے حریف کو کم ہدف پر ٹھکانے لگا کر اپنی کمزور بیٹنگ لائن کے لیے کام آسان کر دیتا تھا۔ اب کم از کم محدود اوورز کی کرکٹ تو باؤلرز کا کھیل نہیں، یہاں اب مکمل طور پر بلے بازوں کا راج ہے۔ پھر پاکستانی باؤلرز میں بھی کوئی دم خم نظر نہیں آیا۔ محمد عامر گزشتہ ڈیڑھ دو سال کی طرح یہاں بھی پہلے میچ میں ناکام ہوئے، اس لیے انہیں ایک سے زیادہ میچز کھلائے بھی نہیں گئے۔ یاسر شاہ یہی ثابت کرتے دکھائی دیے کہ اب تک انہیں ون ڈے ٹیم کا مستقل حصہ نہ بنانے کا فیصلہ کتنا درست تھا۔ مجموعی طور پر باؤلرز کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ سب سے بہتر اعداد و شمار عثمان شنواری کے ہیں کہ جنہوں نے 27.80 کے بھاری اوسط سے 5 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ باقی سب باؤلرز کا اوسط 44 سے بھی اوپر رہا یعنی کہ اُس شعبے میں ہی کارکردگی فرسودہ تھی جس کی بنیاد پر جیت کی امیدیں باندھی جاتی ہیں۔
اب جس سیریز میں پاکستانی باؤلرز کا یہ حال ہو، وہاں بلے بازوں سے بھلا کیا توقع رکھی جاسکتی تھی؟ ویسے کاغذ پر دیکھیں تو پاکستانی بلے بازوں کی کارکردگی اتنی بُری نہیں تھی۔ حارث سہیل اور محمد رضوان نے سیریز میں 2، 2 سنچریاں بنائیں جبکہ عابد علی نے بھی اپنے پہلے ہی ون ڈے میں تہرے ہندسے کی اننگز کھیلی۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی اننگز فیصلہ کن نہیں تھی۔
یہ انفرادی طور پر تو کارنامے قرار دیے جا سکتے ہیں لیکن ٹیم کو ان سنچریوں سے کچھ نہیں ملا۔ پھر یہ زمانہ 100 گیندوں پر 100 رنز بنانے والے کھلاڑیوں کا نہیں ہے۔ اس عیاشی کی متحمل ٹیمیں وہی ہوسکتی ہیں جن کے پاس نچلے آرڈر میں دھواں دار بیٹسمین موجود ہوں جیسے آسٹریلیا کے ایرون فنچ 85 کے اسٹرائیک ریٹ سے کھیل سکتے ہیں کیونکہ نیچے گلین میکسویل جیسا بیٹسمین موجود ہے، لیکن پاکستان کے تمام بلے باز ایک ہی انداز کی بیٹنگ کرنے کے مجرم ٹھہرے۔ چند مقابلوں میں تو منزل قریب ہونے کے باوجود نتیجہ شکست کی صورت میں ہی نکلا۔
پاکستان نے اس سیریز میں کسی finisher کی کمی بہت شدت کے ساتھ محسوس کی۔ اچھے اوپنرز اور فنشرز کی عدم موجودگی ویسے تو پاکستان کرکٹ کا دائمی مرض ہے اور ازل سے ہم ان پوزیشنوں کے لیے 'نجات دہندہ' کی تلاش میں ہیں اور لگتا ہے ابد تک رہیں گے۔ آسٹریلیا کے گلین میکسویل کو ہی دیکھ لیں، جنہوں نے آخری 3 ون ڈے میچز میں 71، 98 اور 70 رنز کی شاندار اننگز کھیلیں۔
بارہا دیکھا گیا ہے کہ وہ سنچری کے بہت قریب آنے کے باوجود اس دباؤ کا شکار نظر نہیں آتے جو عام طور پر کھلاڑیوں پر محسوس کیا جاتا ہے۔ اس سیریز میں ایسا دباؤ پاکستانی کھلاڑیوں میں کئی بار دیکھا گیا کہ جو سنچری کے قریب پہنچ کر دھیمے پڑ گئے اور انفرادی سنگِ میل عبور کرنے کا دباؤ ان پر صاف نظر آیا۔
مزید پڑھیے: عمر اکمل کو آخری میچ سے قبل رات گئے باہر رہنے پر جرمانے کا سامنا
ان کے برعکس میکسویل ہمیشہ اپنی اننگز کی رفتار کو گھٹائے بغیر کھیلتے رہتے ہیں اور سنچری سے چند رنز کے فاصلے پر بھی ہوں تو کوئی ایسا خطرناک شاٹ کھیلنے سے بالکل نہیں گھبراتے جو انہیں سنچری سے محروم بھی کرسکتا ہو۔ وہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں اور اس مرتبہ بھی کہا کہ سنچریاں ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتیں، ان کی ترجیح ہے اپنی ٹیم کو جتوانا، بس! جس ٹیم میں ایسے کھلاڑی ہوں، اسے کامیابی سے بھلا کون روک سکتا ہے؟
قصہ مختصر یہ کہ نئے کھلاڑیوں کو آزمانا ضروری ہے، لیکن ایک ساتھ بہت زیادہ تجربات کرنا مہنگا پڑسکتا ہے۔ جدید کرکٹ میں آپ کسی سیریز کو یوں تجربے کی بھینٹ نہیں چڑھا سکتے کیونکہ نہ صرف عالمی رینکنگ پر براہِ راست اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ جن کھلاڑیوں کو آرام کا موقع دیا گیا، جنہیں بھرپور توجہ اور طاقت کے ساتھ ورلڈ کپ کے لیے بٹھایا گیا، اب وہ بھی ذہنی دباؤ کا شکار ہوں گے کیونکہ اب سال کا سب سے بڑا ٹورنامنٹ سر پر ہے۔
ون ڈے کرکٹ میں جنوبی افریقہ کے بعد آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے اچھا شگون نہیں۔ پھر بھی امید کی جاسکتی ہے کہ ورلڈ کپ سے پہلے انگلینڈ میں کھیلے جانے والے مقابلے ٹیم کو نئی سمت دینے اور آنے والے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار کرنے میں مدد دیں گے۔ پاکستان کے بارے میں بھلا کس کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی ہے۔ ہوسکتا ہے 20 سال بعد جب ایک مرتبہ پھر ورلڈ کپ کا فائنل لارڈز میں ہو تو قومی ٹیم بھی اس کا حصہ ہو۔
تبصرے (2) بند ہیں