مہنگائی 5 سال کی بلند ترین شرح 9.4 فیصد تک پہنچ گئی
اسلام آباد: روپے کی قدر میں تیزی سے کمی نے جہاں صارفین پر اثر ڈالا وہی گزشتہ ماہ توانائی کی قیمتیں 5 برسوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی اور گزشتہ ماہ کے اعداد و شمار کے مطابق مہنگائی کی شرح 9.4 فیصد کو چھو گئی۔
ڈان اخبار میں شائع [رپورٹ] کے مطابق ادارہ شماریات کی جانب سے جاری ماہانہ رپورٹ میں کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) کے ذریعے یہ بات سامنے آئی کہ مہنگائی کی شرح مارچ 2019 میں 9.4 فیصد تک جا پہنچی۔
گزشتہ 3 ماہ کے دوران بڑے شہری مراکز میں تازہ سبزیوں، پھلوں اور گوشت کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا۔
مزید پڑھیں: آج مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ این آر او ہے، عمران خان
ماہ جولائی سے مارچ کے عرصے کے دوران سالانہ بنیادوں پر اوسطاً مہنگائی کی شرح بڑھ کر 6.79 فیصد تک پہنچ گئی۔
حالانکہ حکومت کی جانب سے رواں مالی سال کے لیے سالانہ افراط زر 6 فیصد مقرر کی گئی تھی لیکن مہنگائی کی یہ شرح فروری میں ہی تجاوز کرگئی۔
رپورٹ کے مطابق مالی سال 18-2017 میں مہنگائی کی اوسطاً شرح 3.92 فیصد تھی اور ایک سال قبل یہ 4.16 فیصد پر پہنچ گئی تھی۔
روپے کی قدر میں کمی اور عالمی سطح پر خام کی قیمتوں میں اضافے کے باعث اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی سخت مانیٹری پالیسی کو بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیچھے دیکھا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ معیشت پر سخت دباؤ کے تحت جمعہ کو اسٹیٹ بینک کی جانب سے 50 بنیادی پوائنٹس میں اضافے کے ساتھ پالیسی ریٹس کو 10.75 فیصد تک بڑھا دیا، جو پہلے ہی 6 سال کی بلند ترین سطح پر تھی۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مرکزی بینک نے جنوری 2018 سے شرح سود میں 4.50 فیصد تک اضافہ کیا۔
تاہم مہنگائی کو اس حد تک پہنچانے میں غیر غذائی- غیر توانائی (بنیادی افراط زر) اشیا کا اہم کردار رہا، جو عام طور پر معیشب کے طلب کے دباؤ کی نشاندہی کرتے ہیں۔
خوراک اور توانائی کی غیر مستحکم قیمتوں کو علیحدہ کریں تو بنیاد افراط زر سالہا سال کے حساب سے 8.5 فیصد ریکارڈ کی گئی اور اس میں مانیٹری پالیسی میں سختی کے باوجود مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق مارچ میں خوراک کی مہنگائی میں سالانہ بنیادوں کے حساب سے 8.4 فیصد اضافہ ہوا جبکہ ماہانہ بنیادوں پر یہ شرح 2.9 فیصد رہی۔
یہ بھی پڑھیں: مہنگائی کا اثر صرف امیروں پر پڑا، غریب طبقہ اس سے محفوظ رہا، اسد عمر
اسی طرح جلد خراب ہونے والی اشیا کی قیمتوں میں ماہانہ بنیادوں پر 6.1 فیصد اضافہ ہوا جبکہ جلد نہ خراب ہونے والی اشیا کی قیمتوں میں اب تک کا سب سے زیادہ 22 فیصد اضافہ ہوا۔
مہینوں کے درمیان مہنگائی
مارچ میں کھانے کی جو اشیا سب سے زیادہ مہنگی ہوئیں، ان میں پیاز (39.28 فیصد)، تازہ سبزیاں (24.43 فیصد)، ٹماٹر (18.83 فیصد)، چکن (15.88 فیصد)، دال مونگ (12.68 فیصد)، تازہ پھل (12.52 فیصد)، گڑ (2.88 فیصد)، چینی (2.74 فیصد)، پھلیاں (1.23 فیصد)، مچھلی (1.18 فیصد)، مرچیں (0.91 فیصد)، دال چنا (0.60 فیصد) ویجیٹیبل گھی (0.58 فیصد)، چاول (0.41 فیصد)، دال مسور (0.31 فیصد)، بیکری اور کنفیکشنری (0.31 فیصد)، آٹا (0.20 فیصد)، کوکنگ آئل (0.18 فیصد)، چائے (0.17 فیصد)، تازہ دودھ (0.17 فیصد) اور گندم (0.16 فیصد) اضافہ شامل ہے۔
تاہم گزشتہ ماہ جن اشیا کی قیمتوں میں کمی ہوئی ان میں انڈے (6.32 فیصد)، آلو (5 فیصد)، پان کے پتے اور چھالیہ (2.09 فیصد)، ثابت چنا (0.70 فیصد) اور گندم کی مصنوعات (0.41 فیصد) کمی شامل ہے۔