• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

کراچی: جنگ اخبار کے رپورٹر کو مبینہ طور پر گھر سے اٹھا لیا گیا

شائع March 30, 2019
مطلوب آزاد اور ترقی پسند خیالات رکھتا تھا اور سماجی کارکن تھا، بھائی منہاج — فوٹو: امتیاز علی
مطلوب آزاد اور ترقی پسند خیالات رکھتا تھا اور سماجی کارکن تھا، بھائی منہاج — فوٹو: امتیاز علی

کراچی میں 'روزنامہ جنگ' اخبار کے رپورٹر کو مبینہ طور پر نامعلوم افراد ان کے گھر سے اٹھا کر لے گئے۔

رپورٹر مطلوب حسین موسوی کے بھائی منہاج موسوی نے دعویٰ کیا کہ 'تقریباً دو درجن افراد صبح 4 بجے کے لگ بھگ سلمان فارسی سوسائٹی میں واقع ہمارے گھر کی دیواریں پھلانگ کر داخل ہوئے اور میرے بھائی کو لے گئے، جبکہ نامعلوم افراد نے چہرے ڈھانپے ہوئے تھے۔'

انہوں نے الزام لگایا کہ ماسک پہنے افراد نے اہلخانہ سے بھی بُرا برتاؤ کیا اور مطلوب کو ساتھ لے جانے سے قبل انہیں ایک کمرے میں بند کردیا۔

پڑوسیوں کا حوالہ دیتے ہوئے منہاج کا کہنا تھا کہ سادہ لباس میں ملبوس مسلح افراد ٹویوٹا ویگو، ٹویوٹا پراڈو اور پولیس کی تین گاڑیوں میں آئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ مطلوب کا کسی سیاسی یا مذہبی تنظیم سے تعلق نہیں تھا، تاہم وہ آزاد اور ترقی پسند خیالات رکھتا تھا اور سماجی کارکن تھا۔

یہ بھی پڑھیں: صحافی نصراللہ خان کے خلاف چارج شیٹ عدالت میں پیش

انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ اگر ان کے بھائی پر کوئی الزام یا کیس ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے، تاکہ اہلخانہ کی تشویش کم ہو سکے۔

منہاج موسوی نے کہا کہ 'واقعے کے خلاف ہم نے الفلاح تھانے میں درخواست جمع کرادی ہے'، جس کی ڈی آئی جی شرقی عامر فاروقی نے تصدیق کی۔

عامر فاروقی کا کہنا تھا کہ 'مطلوب کے خاندان نے درخواست دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ رپورٹر کو گھر سے اٹھانے میں پولیس اہلکار اور سادہ لباس افراد ملوث ہیں۔'

سینئر پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ ہم اس موقف کی متعدد پولیس ایجنسیوں سے تصدیق کر رہے ہیں۔

کراچی یونین آف جرنلسٹس (کے یو جے) نے صحافی اور جنگ کے رپورٹر مطلوب حسین موسوی کو الفلاح تھانے کی حدود میں واقع ان کے گھر سے اغوا کیے جانے کے واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔

کے یو جے کے عہدیداران اپنے بیان میں حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس واقعے کا فوری نوٹس لے، صحافیوں کی اس طرح پراسرار گمشدگی پر پوری صحافی برادری میں تشویش پائی جاتی ہے، حکومت ایسے واقعات کا فوری سد باب کرے۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال نومبر میں اسی طرح کے واقعے میں روزنامہ اردو اخبار 'نئی بات' سے وابستہ سینئر صحافی نصر اللہ خان کو سیکیورٹی اہلکاروں نے ان کے گھر پر کارروائی کرتے ہوئے حراست میں لے لیا تھا۔

تین روز بعد محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے صحافی کی گرفتاری ظاہر کی اور انہیں عدالت میں پیش کرتے ہوئے ان پر ممنوعہ لٹریچر رکھنے کا الزام عائد کیا۔

سی ٹی ڈی کے مطابق نصر اللہ خان کے پاس سے مبینہ طور پر افغان جہاد اور پنجابی طالبان کے حوالے سے رسائل اور کتابچے برآمد ہوئے جس میں فرقہ واریت پر مبنی مواد اور لوگوں کو جہاد میں شمولیت کی ترغیب دی گئی تھی۔

چارج شیٹ میں تفتیشی افسر نے استغاثہ کے 5 گواہان کو نامزد کیا، اس کے علاوہ تفتیشی افسر نے ’خالد مکاشی‘ نامی شخص کو ریمانڈ پیپر اور چارج شیٹ دونوں میں شامل کیا، جو مبینہ طور پر القاعدہ کا رکن ہے اور مبینہ طور پر زیر حراست صحافی کے اس کے ساتھ روابط تھے۔

تاہم 28 نومبر کو انسداد دہشت گردی عدالت نے نصر اللہ چوہدری کی ایک لاکھ روپے کے مچلکے کے عوض ضمانت منظور کر لی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024