• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

’اردو میڈیم‘ نہیں، صرف ’انگلش میڈیم‘!

شائع March 30, 2019
لکھاری کا ای میل ایڈریس irfan.husain@gmail.com ہے۔
لکھاری کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

اگر آپ کراچی کے کسی مہنگے ریسٹورینٹ میں کھانا کھانے جائیں تو اکثر و بیشتر آس پاس کی میزوں پر بیٹھے لوگوں کے درمیان جاری گفتگو کی زبان انگریزی پائیں گے۔

یہی حال ڈیفنس اور کلفٹن کے نامور بڑے بڑے آئس کریم پارلر اور قہوہ خانوں کا ہے جہاں بچے کہیں کم تو کہیں زیادہ روانی کے ساتھ انگریزی بولتے نظر آتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح بڑے بڑے کارپوریٹ دفاتر میں ایگزیکیٹو سطح کے عملے پر تو جیسے کسی غیر تحریری حکم نامے کے تحت اردو بولنے پر پابندی عائد کی گئی ہو۔

تو بھئی پاکستان میں آخر کیا ہو رہا ہے کہ جس نے 72 برس قبل برطانوی حکومت سے آزادی حاصل کی تھی؟ کسی دور میں ہم پر حکمرانی کرنے والے کلونیل آقاؤں کے یہاں سے کوچ کرجانے کے بعد بھی ان کی زبان کا استعمال بڑھتا کیوں جا رہا ہے؟ اس رجحان نے ہماری قومی و علاقائی زبانوں کو کنارے سے لگا دیا ہے جبکہ تخلیقی صلاحیتوں کو بھی کمزور کردیا ہے۔

دوستوں سے گفت و شنید کے دوران ہم لاشعوری طور پر اردو سے انگریزی بولنا شروع کردیتے ہیں اور پھر جب کوئی ٹھیک لفظ نہیں مل رہا ہوتا تب دوبارہ پہلے والی زبان میں بولنا شروع کردیتے ہیں۔ مجھے یہاں یہ اقرار کرنے دیجیے کہ میں اس مرض کا بڑا شکار ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ برسوں قبل جب میں ایک مشنیری اسکول سینٹ پیٹرکس میں زیرِ تعلیم تھا تو ان دنوں وقفے کے دوران اپنے دوستوں سے اردو زبان میں بات کرنے پر 4 آنے (یعنی 25 پیسے) جرمانہ عائد کیا جاتا تھا۔

ایک دن کراچی کے زم زمہ روڈ پر خمیری روٹی خرید رہا تھا کہ قریب 10 سالہ ایک کم عمر لڑکا میرے پاس آیا اور بچوں کی ایک کتاب خریدنے کے لیے کہا۔ اس عمر کے بچوں کو دیکھنا اگرچہ معمول ہی بن چکا ہے، مگر اس دن انوکھی بات یہ تھی کہ وہ مجھے کتاب خریدنے کے لیے قائل کرنے کی غرض سے انگریزی زبان کا استعمال کر رہا تھا، حالانکہ وہ واضح طور پر متوسط طبقے کے کسی گھرانے سے تعلق رکھنے والا بچہ تھا، اور اس بات کا تو بہت ہی معمولی امکان ہے کہ اس نے کسی نجی اسکول سے تعلیم حاصل کی ہوگی۔

یہ بات تو عیاں ہے کہ انگریزی کو اعلی سطح پر زبانِ مقتدر کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ امیر والدین کے بچوں کے درمیان ’اردو میڈیم‘ کو تو تقریباً ہتک آمیز سمجھا جاتا ہے۔ بچے ابتدا سے ہی یہ سمجھنا شروع کردیتے ہیں کہ اردو وہ زبان ہے جو ملازمین کو اپنا حکم دینے کے لیے استعمال کی جاتی ہے جبکہ انگریزی زبان وہ ہے کہ جو والدین اور دوست و عزیز اقارب سے مخاطب ہونے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

غریب والدین تک بھی یہ پیغام پہنچتا ہے، اور وہ اپنے معمولی وسائل کا ایک بڑا حصہ اپنے بچوں کو برائے نام ’انگلش میڈیم‘ اسکول میں پڑھانے کے لیے قربان کردیتے ہیں۔ تاہم، ایسے بہت ہی کم ادارے موجود ہیں جو درست انگریزی کی تعلیم فراہم کرتے ہیں، لیکن وہ اس قدر زیادہ فیس طلب کرتے ہیں جن کی ادائیگی زیادہ تر والدین کے بس سے باہر ہوتی ہے۔

لیکن اگر آپ اتنے خوش نصیب رہے ہیں کہ زبانی انگلش پر کسی حد تک عبور کے ساتھ گریجویشن کی ہے تو آپ کے لیے موقعوں کے کئی دروازے کھلے ہیں۔ ذہانت کو بہت ہی کم اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اگر آپ روانی کے ساتھ انگریزی بول سکتے ہیں تو نہ صرف آپ ذہین و فطین ہیں بلکہ ایک ایسے گھرانے سے بھی تعلق رکھتے ہیں جس کے اہم لوگوں کے ساتھ تعلقات قائم ہیں۔ لہٰذا آپ ایک امتیازی فائدے کے ساتھ زندگی کی ابتدا کرتے ہیں اور ان کم خوش نصیب لوگوں کو خود سے کم تر سمجھتے ہیں جن کا لہجہ انہیں ’اردو میڈیم‘ کی شناخت بخش دیتا ہے۔

اگر وہ کم خوش نصیب افراد آپ سے انگریزی زبان میں مخاطب ہونے کا گمان بھی کریں تو قوی امکان ہے کہ آپ ان سے اردو میں ہی جواب دے کر انہیں ان کی حیثیت یاد دلانے کی کوشش کریں گے۔

اس قسم کا لسانی تکبر ہمارے معاشرے کو اس انداز میں تقسیم کرتا ہے، جو انداز برطانوی سماج کی تقسیم میں نظر آتا ہے۔ یہاں، ایٹون (Eton) اور ہیرو (Harrow) جیسے کسی مہنگے نجی بورڈنگ اسکولوں میں آنے سے نہ صرف آپ کا لہجہ درست ہوتا ہے بلکہ آپ ایک خاص اندازِ فکر و عمل بھی سیکھ جاتے ہیں جس سے فوراً یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے ایک اشرافیہ اسکول سے تعلیم حاصل کی ہوئی ہے۔ یہ خصوصی حیثیت دلوانے کے لیے والدین اپنے گھر تک گروی رکھنے پر تیار ہوجائیں گے تاکہ اپنے بچوں کے لیے اس برتری کو یقینی بنایا جاسکے۔

انگریزی زبان میں روانی کے فائدے تو واضح ہیں مگر اس کے باوجود اس زبان کی تعلیم اور استعمال کے ارد گرد کافی زیادہ کنفیوژن اور منافقت نظر آتی ہے۔ ہمارے پالیسی ساز اور نمائندگانِ عامہ اردو کے استعمال کی ستائش کرتے ہیں اور اس کی ترقی کے لیے زبانی کلامی خدمت کرتے ہیں۔ مگر بھوجیے کہ ان کی اپنی اولادوں نے کہاں سے تعلیم کی ہے؟ حتیٰ کہ ہمارے ہاں سینئر کلرک بھی اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا بھیجے جانے کے لیے مشہور ہیں جبکہ عام زندگی میں وہ پرجوش انداز میں امریکا مخالف نعرے لگا رہے ہوتے ہیں۔

لاہور کے ایچیسن کالج اور کراچی کے گرامر اسکول جیسے اسکولوں میں داخلہ جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ ایک طالب علم کی خالی جگہ پر بھی ڈھیروں درخواستیں بھیجی جاتی ہیں اور محض 5 برس کے کمسن بچوں سے بھی امتحان لیا جاتا ہے کہ کون سا بچہ اسکول کے لیے موزوں ہے اور کون نہیں، البتہ اس قدر کمسن بچے سے کس علم کی توقع کی جاتی ہے یہ میری سمجھ سے تو باہر ہے۔ مگر صرف یہ یقینی بنانے کے لیے کہ ان کے والدین ’درست‘ قسم کے ہیں، انہیں انٹرویو کے لیے بھی طلب کیا جاتا ہے۔

ایک بار اسکول میں داخلہ ہوگیا تو بچے کی پوری زندگی کا نقشہ سا تیار ہوجاتا ہے کہ آگے جاکر وہ گریجویشن کسی امریکی یونیورسٹی سے کرے گا، اس کے بعد کسی اچھی، بلکہ ترجیحی طور پر کسی ملٹی نیشنل کارپوریشن یا پھر والد کی کمپنی میں ملازمت کی باری آئے گی، کسی ہم پلہ پس منظر سے تعلق رکھنے والے یا والی سے شادی کی جائے گی اور پھر اپنے بچوں کا کسی اشرافیہ اسکول میں داخلہ یقینی بنانے کی جدوجہد کا مرحلہ شروع کیا جائے گا۔

مگر اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے چھوٹے بچے کی اس پروگرام شدہ زندگی کے سلسلے کے درمیان ایسے ذہین بچے جو منہ میں چاندی کا جمچ لیے پیدا نہیں ہوتے کہ جس پر امرا کے بچے اپنا ازلی حق سمجھتے ہیں، انہیں ایک طرف کردینے سے ہم بہت بڑا نقصان اٹھاتے ہیں۔ کنارے سے لگے یہ افراد انگریزی سے ہمارے لگاؤ کی وجہ سے بننے والی گہری دراڑوں میں پھنسے رہتے ہیں۔

یوں ہم نے نہ صرف خواتین اور اقلیتوں کو اہم جگہوں سے دُور رکھا ہوا ہے بلکہ انگریزی کو زیادہ سے زیادہ فوقیت دے کر باصلاحیت افراد کے مجموعے یا ٹیلنٹ پول کو محدود سے محدود تر کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ایسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے جہاں زیادہ تر بچے اردو یا انگریزی میں سے کسی ایک زبان پر مناسب حد تک عبور حاصل کیے بغیر اسکول سے فارغ ہوتے ہیں اور لامحالہ ہم اپنے ثقافتی ورثے کے ایک اہم حصے سے محروم ہوجاتے ہیں۔


یہ مضمون 30 مارچ 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

عرفان حسین

لکھاری کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (9) بند ہیں

Sheraz Ali Mar 30, 2019 10:42pm
ایک بہت ہی اچھی تحریر ،ہمارے معاشرے کی لسانی پریشانی جس نے ہماری قوم کو اضطراب میں ڈالا ہوا ہے نہ تو ہم موزوں اردو بول سکتے ہیں اور نہ ہی انگر یزی ۔
Mumtaz Ahmed Shah Mar 30, 2019 11:38pm
An extra ordinary article written by Mr.Irfan Sahib. (Texas)
Irfan Mar 31, 2019 02:09am
ہمارے ملک کی وڈیر شاہی اور اشرافیہ طبقہ جان بوجھ کر نہیں چاہتا کہ ہم اردو میں ترقی کرتے ؛ کیوں کے یہ بھی متوسط طبقے کو ان کے برابر لے آتا جو ان کو برداشت نہیں ہے۔
NK Mar 31, 2019 08:18am
It is an irony for us that the ghost of english language is still with us. Here in US with the expats Urdu is all but dead, Only if we speak urdu with our children at home and coax them to do the same then only urdu can survive.
NK Mar 31, 2019 08:19am
@Sheraz Ali I truly endorse your view. I would have loved to answer in urdu but I am not aware of a urdu keyboard
anees ur rahman safi Mar 31, 2019 08:36am
yeh behtareen coulmn ap na lika ha ma is sa itefaq karta ho
KHAN Mar 31, 2019 07:03pm
مقابلے کے امتحانات اردو میں کرادیں، پیمرا ڈراموں اور چینلز پر انگریزی میں بات کرنے کی نگرانی کریں۔ جن الفاظ کی اردو موجود نہیں ان کے انگریزی استعمال میں حرج نہیں۔ مثلاً ڈراما، پیمرا اور چینلز ،،،، تاہم عام گفتگو اردو میں ہی ہونی چاہیے۔
Hasan Apr 01, 2019 10:58am
I called new urdu speaking generation "Lost Generation' Just Imagine how they act when they become parents to teach their children's?
یمین الاسلام زبیری Apr 01, 2019 06:47pm
میں نے اس مضمون پر تبصرے دیکھے، وہ لوگ بھی جو انگریزی میں لکھ رہے ہیں اس کے حق میں ہیں۔ امریکہ نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی، وہاں کی زیادہ تر آبادی انگریزی بولنے والی تھی، لیکن آج امریکی انگریزی انگلستان والوں سے الگ ہے ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ انہوں نے غلامی پسند نہ کی۔ امریکہ میں کرکٹ نہیں کھیلی جاتی، چائے نہیں پی جاتی، ان کی فٹبال الگ ہے، وغیرہ وغیرہ۔ چین، جاپان، عرب اور کئی دوسرے ممالک غلامی میں رہ چکے ہیں۔ لیکن جس طرح پاکستان اور بھارت نے ذہنی غلامی قبول کی ہے ایسی کسی نے نہیں کی۔ جبکہ انگریز نے تو اردو کو ہندوستان کی سرکاری زبان کا درجہ دیا تھا۔ عوام کا اتنا قصور نہیں جتنا ریاستی اداروں کا ہے۔ ہندو پاک کے علاقوں میں بہت سی قومیں رہتی ہیں، ہر ایک کی زبان جدا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ان تمام صوبوں کو زیادہ سے زیادہ اختیارت مل جائیں، اور یہ اپنے مسائل اپنی اپنی زبان میں حل کر سکیں۔ یہ آپس میں اپنی زبان میں جھگڑا کریں اور محبت کا اظہار بھی۔ تمام شادی کارڈ یہ اپنی زبان میں فخریہ چھپوائیں۔ سب سے بڑھ کر عدالت میں اپنا مافی الضمیر یہ اپنی زبان میں بیان کر سکیں اور کارروائی سن سکیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024