برطانوی پارلیمنٹ نے 'بریگزٹ' معاہدہ تیسری مرتبہ مسترد کردیا
برطانیہ کی پارلیمنٹ میں وزیر اعظم تھریسا مے کے بریگزٹ معاہدے کو تیسری مرتبہ کثرت رائے سے مسترد کردیا ۔
فرانسیسی خبررساں ادارے ’ اے ایف پی ‘کی رپورٹ کے مطابق برطانوی دارالعوام میں بریگزٹ معاہدے کے حق میں 286 جبکہ مخالفت میں 344 ووٹ دیے گئے۔
یورپی یونین کی جانب سے منظور کیے گئے معاہدے کو تیسری مرتبہ مسترد کیے جانے کے بعد آئندہ دو ہفتوں میں معاہدے کے بغیر بریگزٹ ہوگا یا اس میں طویل تاخیر ہونے کا امکان ہے۔
برطانوی پارلیمنٹ نے تھریسا مے کی سیاسی ڈیڈلاک کے خاتمے کی درخواست مسترد کردی جس نے برطانیہ کو بحران کی جانب دھکیل دیا ہے۔
مزید پڑھیں: تھریسامے کا بریگزٹ مذاکرات کے اگلے مرحلے سے قبل مستعفی ہونے کا عندیہ
یہ تھریسا مے کے لیے ایک اور بڑا دھچکا ہے انہوں نے اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے معاہدے کی حمایت کی صورت میں مستعفی ہونے کا عندیہ دیا تھا ، وہ اپنی حکومت اور بریگزٹ پر کنٹرول تقریباً کھوچکی ہیں۔
برطانیہ نے 29 مارچ کو یعنی آج یورپی یونین سے علیحدہ ہونا تھا لیکن تھریسا مے نے یورپی یونین کے رہنماؤں سے گزشتہ ہفتے کچھ وقت مانگا تھا۔
برطانوی وزیراعظم کو 10 اور 11 اپریل کو برسلز میں بلائے گئے ہنگامی اجلاس میں آئندہ کے لائحہ عمل سے متعلق آگاہ کرنا ہے۔
یورپی یونین فیصلے کے لیے دو شرائط کے ساتھ 12 اپریل کی مہلت طے کرچکی ہے کہ برطانیہ بغیر کسی معاہدے کے الگ ہوجائے گا یا اس حوالے سے نئے نقطہ نظر کے لیے مدت میں توسیع کی اجازت پر اتفاق کیا جائے گا۔
تھریسا مے کہہ چکی ہیں کہہ 3 برس قبل 2016 کے ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے لیے ووٹ دینے کے بعد ووٹرز سے یورپین پارلیمنٹ کے انتخابات میں حص لینے کا کہنا ’ ناقابل قبول ‘ ہوگا۔
برطانوی پارلیمنٹ کی جانب سے یورپی یونین سے علیحدگی کے معاہدے پر اتفاق میں ناکامی کی وجہ سے برطانیہ مشکل میں آگیا ہے اس کے ساتھ ہی کاروباری رہنماؤں اور ٹریڈ یونینز نے ’ نیشنل ایمرجنسی ‘ سے خبردار کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’بریگزٹ معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں برطانیہ کے پاس مارشل لا کا آپشن موجود ہے‘
معاہدے کے حوالے سے ووٹرز تقسیم ہوگئے جن میں اکثر غصے کا شکار ہیں، تھریسا مے کی جانب سے اراکین پارلیمنٹ کو صورتحال کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے جبکہ وہ تھریسا مے کو معاہدے کا متبادل نہ دینے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
اپوزیشن لیڈر جیرمی کوربین نے کہا کہ ’ وہ حکمرانی کی صلاحیت نہیں رکھتیں‘۔
گزشتہ ہفتے یورپی یونین کے رہنماؤں سے کیے گئے معاہدے کے مطابق اگر پارلیمنٹ رواں ہفتے معاہدہ منظور کردیتی تو برطانیہ 22 مئی کو علیحدہ ہوتا۔
حکام کا کہنا ہے کہ 12 اپریل سے قبل ابھی بھی تھریسا مے کے پاس معاہدے کی منظوری کا موقع موجود ہے۔
دوسری جانب یورپی یونین کمیشن کی ترجمان نے تیسری مرتبہ مسترد بریگزٹ معاہدہ ہونے سے متعلق کہا ہے کہ 12 اپریل کو برطانیہ کی بغیر معاہدے کے یورپین یونین سے علیحدگی متوقع ہے۔
انہوں نے کہا کہ برسلز، برطانیہ کی بےترتیب روانگی کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔
بریگزٹ معاہدہ
واضح رہے کہ 2016 میں برطانیہ میں ہونے والے حیرت انگیز ریفرنڈم میں برطانوی عوام نے یورپی یونین سے اخراج کے حق میں ووٹ دیا تھا جس پر عملدرآمد اب سے چند ہفتوں بعد ہو گا۔
جولائی 2016 میں وزیر اعظم بننے والی تھریسامے نے بریگزٹ معاہدے پر عوامی فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن شدید مخالفت کے بعد سے انہیں مشکلات کا سامنا ہے اور وہ اراکین پارلیمنٹ کو منانے کی کوشش کررہی ہیں کہ وہ اخراج کے معاہدے کو قبول کرلیں۔
اس معاہدے پر ووٹنگ گزشتہ سال دسمبر میں ہونا تھی لیکن بعد ازاں اسے جنوری تک کے لیے ملتوی کردیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: تھریسا مے معاہدے میں ایک اور مخالفت کے بعد بریگزٹ میں تاخیر کی خواہاں
مارچ 2017 میں برسلز میں شروع ہونے والے سخت مذاکرات کے نتیجے میں معاہدے کے مسودے پر اتفاق کیا گیا تھا جبکہ یورپی رہنماؤں نے دوبارہ مذاکرات کے امکان کو مسترد کردیا تھا اور اس غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے برطانوی معیشت میں مستقل اضطراب پایا جاتا ہے۔
بریگزٹ کے حوالے سے کی گئی پہلی ووٹنگ میں تھریسامے کے خلاف 308 ووٹ سے ترمیم پاس کی گئی جس میں حکمراں جماعت کے درجنوں اراکین بھی شامل تھے جبکہ 297 اراکین نے وزیراعظم کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
برطانوی وزیراعظم تھریسامے کی اپنی جماعت کنزرویٹو پارٹی کے اراکین نے بھی لیبرپارٹی کا ساتھ دیا جس کے بعد 29 مارچ کو یورپی یونین سے مکمل علیحدگی کے حوالے سے خدشات پیدا ہوگئے تھے۔
تاہم تھریسامے کو سب سے بڑی ناکامی کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب 16 جنوری کو برطانوی پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے علیحدگی کے وزیر اعظم تھریسامے کے بل کو واضح اکثریت سے مسترد کردیا اور انہیں 202 کے مقابلے میں 432 ووٹ سے شکست ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔
یاد رہے کہ برطانیہ نے 1973 میں یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔
بریگزٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد ابتداء میں معاشی مشکلات ضرور پیدا ہوں گی تاہم مستقبل میں اس کا فائدہ حاصل ہوگا کیوں کہ برطانیہ یورپی یونین کی قید سے آزاد ہوچکا ہوگا اور یورپی یونین کے بجٹ میں دیا جانے والا حصہ ملک میں خرچ ہوسکے گا۔