آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکج مئی تک ملنے کا امکان
کراچی: وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ پاکستان کو عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے 6 سے 12 ارب ڈالر کا مالیاتی پیکج مئی کے وسط تک موصول ہوجائے گا۔
آئی ایم ایف عہدیداروں سے بات چیت کے بعد ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ فنڈ حاصل کرنے کے لیے اپریل کے اواخر یا مئی کے پہلے ہفتے میں سمجھوتہ طے پا جائے گا اور 6 سے 12 ارب ڈالر تک کا پیکج ملنے کی توقع ہے۔
وزیر خزانہ کا مزید کہنا تھا کہ حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان پائے جانے والے اعتراضات گزشتہ چند ماہ کے مقابلے میں بڑی حد تک کم ہوچکے ہیں اور اب ہم سمجھوتے کی طرف گامزن ہیں۔
واضح رہے کہ دونوں فریقین کے درمیان بات چیت میں روپے کے ایکسچینج ریٹ کا معاملہ ایک پیچیدہ نکتہ تھا، جس کی قدر میں 2017 سے اب تک ڈالر کے مقابلے میں 33 فیصد کمی ہوچکی ہے۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ ہمارے اور آئی ایم ایف کے درمیان کوئی نظریاتی اختلاف نہیں، ایکسچینج ریٹ مارکیٹ کی روشنی میں طے ہونا چاہیے، لہٰـذا اس پر کس طرح عملدرآمد ہونا چاہیے اور اس سلسلے میں کیا اقدامات اٹھائے جائیں اس پر بھی بات چیت کی گئی جو آئندہ بھی جاری رہے گی۔
اس بارے میں ایک تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے کچھ اقدامات کی تجویز دی ہے جس میں روپے کا آزادانہ بہاؤ بھی شامل ہے جس کے نتیجے میں کرنسی کی قدر میں مزید کمی ہوگی اور محمکہ جاتی تبدیلیاں مثلاً ٹیکس نیٹ میں توسیع کرنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف مشن چیف کا دورہ پاکستان مکمل
خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو ادائیگیوں کے توازن میں شدید بحران کا سامنا ہے جس کے باعث کچھ تجزیہ کاروں نے ان خدشات کا اظہار کیا ہے کہ کیا حکومت قرضوں کی ادائیگی کر پائے گی کیوں کہ پاکستان کو پاک چین اقتصای راہداری (سی پیک) کی مد میں حاصل ہونے ولے 62 ارب ڈالر کی ادائیگی چین کو بھی کرنی ہے۔
تاہم وزیرخزانہ نے اس خیال کو مسترد کردیا کہ چینی قرضہ ملک کے لیے مشکلات پیدا کرے گا، ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں قرض کے سنگین مسائل کا سامنا ہے لیکن چینی قرض سے کوئی مسئلہ نہیں‘۔
دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان اپنی مالی مشکلات دور کرنے کے لیے سنجیدہ ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ آخری موقع ہوگا جب پاکستان آئی ایم ایف سے رجوع کرے گا۔
مزید پڑھیں: پاکستان کو قرض کی مد میں چین سے 2.2 ارب ڈالر موصول
ان کا کہنا تھا کہ ملک دوراہے پر کھڑا ہے، ہم اس طرح آگے نہیں بڑھ سکتے جس طرح برسوں سے ملک میں حکومتی نظام جاری ہے، ہمیں اصلاحات کرنی ہوں گی، اپنا بجٹ متوازن کرنا ہوگا، ٹیکس وصولی میں اضافہ کرنا ہوگا۔
خیال رہے کہ ان اصلاحات کی بنیاد فنانشل ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی شرائط سے مطابقت ہے جو انسداِدِ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے کے لیے پاکستان کی کارکردگی کا جائزہ لے رہا ہے۔
اسد عمر کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ’ہمارا ماننا ہے کہ اس سلسلے میں تسلی بخش اقدامات کیے گئے ہیں‘۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے گرین سگنل آئی ایم ایف سے فنڈ کی وصولی کے لیے ضروری ہے، ایک سابق عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’یہ سمجھنا کہ آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں محض بے وقوفی ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف سربراہ کی پاکستان آمد، حکومت کی نظریں بیل آؤٹ پیکج پر مرکوز
ان کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے بینکنگ ڈھانچے میں بڑی تبدیلیوں کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے جس قسم کی تبدیلیوں کا مطالبہ ایف اے ٹی ایف نے بھی کیا تھا۔
یہ خبر 29 مارچ 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔