سول سرونٹس کی کارکردگی بہتر کیسی ہوگی؟
سول سروس کے ذریعے گورننس میں بہتری لانا چونکہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے منشور برائے انتخابات 2018ء کا حصہ ہے لہٰذا کثیر تعداد میں اس حوالے سے آرا دی جا رہی ہیں کہ پاکستان کو کس طرح سرکاری شعبہ بہتر کرنا چاہیے۔
تبصرہ نگاروں نے مسائل اور ان کے ممکنہ حل کے بارے میں اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اگرچہ ان کی جانب سے پیش کردہ نکات ٹھیک تو ہیں مگر بحث و مباحثہ کا سلسلہ اب بھی جاری و ساری ہے وہ اصلاحات کو آگے بڑھنے سے روکنے کا باعث بن سکتا ہے۔
سول سروس میں ایک حقیقی تبدیلی پیدا کرنے لیے ہمیں تجزیاتی طور پر مناسب، سیاق و سباق سے مطابقت رکھنے والے اور بڑی حد تک آزمودہ اور خالص سے خالص طریقوں سے مجوزہ پالیسیوں کو جانچنے کی ضرورت ہے۔
اچھی خبر یہ ہے کہ اس قسم کا تجزیاتی طریقہ سہل ہے اور پاکستان میں بھی قابلِ عمل ہے۔
گزشتہ دہائی کے دوران ہم میں سے عاصم خواجہ، شریک لکھاریوں عدنان خان اور بنجمن اولکن اور محکمہ ایکسائیز و ٹیکسیشن پنجاب کے ساتھ مل کر ایسے دو تجرباتی مشقوں پر کام کر رہے ہیں جن میں سول سرونٹس کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے طریقوں کو پرکھا گیا۔ اس مشترکہ کوشش کے نتیجے میں سول سروس کو بہتر بنانے اور وسیع بنیادوں پر اصلاحات لانے کے حوالے سے اہم نکات برآمد ہوئے۔
’جو شخص‘ کام کر رہا ہے یا پھر ’جس طریقے کے ساتھ‘ کام کر رہا ہے، ان دونوں میں کسی ایک میں تبدیلی لا کر سول سرونٹس کی کارکردگی بہتر بنائی جاسکتی ہے۔ اب سول سرونٹس کو نکالنا مشکل اور انتشارانگیز عمل ثابت ہوسکتا ہے اس کے علاوہ یہ گارنٹی بھی نہیں ہوگی کہ ان کی جگہ نئے آنے والے کوئی اچھی کارکردگی دکھائیں گے۔
تاہم، ان کے کام کے بدلے ملنے والے معاوضے کے طریقہ کار میں تبدیلی لائے جائی، مثلاً وہ جتنی اچھی کارکردگی دکھائیں گے اس حساب سے انہیں تنخواہ دی جائے، تو یہ عمل کافی آسان اور مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔
اس حوالے سے پہلا تجربہ ٹیکس وصول کاروں کو ان کی کارکردگی کی بنیادوں پر بونس تنخواہ دے کر آزمایا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دو سال کے دوران ٹیکس وصول کاروں کو کارکردگی کے عوض تنخواہ دینے کی ان اسکیموں کے لیے جہاں جہاں کام سونپا گیا وہاں سے عمومی ٹیکس ادائیگیوں کے مقابلے میں 46 فیصد زیادہ ٹیکس وصول کیا گیا۔
دوسرے تجربے میں غیر مالیاتی مراعات کے طریقے کو جانچا گیا،اس دوران یہ آزمائش کی گئی کہ اگر سول سرونٹس کو ان کی من پسند جگہوں پر میرٹ بنیادوں پر تعیناتی کا وعدہ کیا جائے تو کیا یہ اس سے انہیں اپنے کام کے لیے حوصلہ ملتا ہے یا نہیں۔ نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ زیر آزمائش ٹیکس وصول کاروں کے جس گروہ کو کارکردگی کے عوض اپنی من چاہی جگہ پر تعیناتی کی اجازت دی گئی تھی، اس کی جانب سے ٹیکس وصولی شرح میں 41 فیصد کا اضافہ ہوا۔ یہ مالیاتی مراعات کے مقابلے میں معمولی فرق کے ساتھ کم شرح بھلے ہو، مگر دھیان رہے اس طریقے میں ایک بھی اضافی پیسہ خرچ نہیں ہوا۔
کارکردگی بہتر بنانے کے لیے کم لاگت والے طریقوں کے حوالے سے یہ تجربات کون سے نتیجے اخذ کرتے ہیں انہیں ہم نے اس مضمون کے مفصل ورژن میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مگر پاکستان کی سول سروس میں وسیع تر اصلاحات لانے کے عمل کے حوالے سے یہ تجربات کیا بتاتے ہیں؟
یہ بتاتے ہیں کہ اصلاحاتی نکات کی افادیت کا پتہ لگانے کا بہتر طریقہ یہی ہے کہ ان کا عملی طور پر تجربہ کرکے دیکھا جائے۔
پہلی تحقیق یا تجربے کے مثبت اثرات کے حصول کے لیے، ہم نے 3 مخلتف اسکیموں کو آزامایا اور ہم نے پایا کہ سادہ سی بونس اسکیم نے سب سے بہتر انداز میں کام دکھایا۔
بالآخر بہتر سے بہتر پالیسی کی تلاش کے لیے آپ کو ہر ایک مخصوص صورتحال کے پیش نظر مختلف اقسام کی اسکیموں کو آزمانے کی ضرورت پڑے گی۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ مختلف آپشنز کا تجربہ کرکے دیکھنے سے نہ صرف آپ نہ صرف ان سے حاصل ہونے والے فوائد کا پتہ لگا سکتے ہیں بلکہ اس طرح آپ کو چند ایسے سائڈ افیکٹس سے بھی محتاط رہنے میں مدد ملتی جو شہریوں کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتے ہیں۔
پہلی تحقیق کے دوران ہمارے سرویز میں جائزاتی کھرے پن یا ٹیکس دہندگان کے اطمنان پر کسی قسم کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوئے۔ تاہم ہم نے یہ ضرور پایا کہ جہاں ٹیکس دہندگان نے زیادہ ٹیکس ادا کیا وہیں دیگر نے نئی بارگین میں علیحدہ سے بھاری ادائگیوں کی پیش کش کی اطلاع دی۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مفصل انداز میں معلومات کو اکٹھا کرنے سے آپ کو ایک ایسی پالیسی مرتب کرنے میں مدد مل سکتی ہے کہ جس میں سب کے لیے بہترین ممکنہ نتائج برآمد ہوں، جبکہ اس میں کام کے صلے میں اجرت کے ساتھ غیر مطلوب رویوں پر جرمانیں بھی شامل ہوں۔
آخری بات یہ کہ پالیسی اصلاحات کے بعد وقت فوقتاً اس کا جائزہ لیا جائے تا کہ اس میں مزید بہتری لانے میں مدد مل سکے۔ ہماری دونوں تحاقیق کے مطابق ہر سال مراعات کی پیش کش کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے بجائے محکمے کے اہم موقعوں پر ہی ایسی پیش کش کی جائے۔
گزرتے وقت کے ساتھ پالیسیوں کے مخصوص اثرات کو سمجھ کر ان کی تاثیر کو بڑھایا اور لاگت کو گھٹایا جاسکتا ہے۔
’اگر ایسا ہو تو ویسا ہوگا‘ جیسے بحث و مباحثے سے پالیسی آپشنز تو مل جائیں مگر اس طرح کے متفرقہ مؤقف بیان کرتے رہنے سے یا پھر ٹاک شوز پر بیٹھ کر طویل طویل ماہرانہ رائے نشر کرنے سے حل تلاش نہیں ہوگا۔
کامیاب اصلاحات لانے کے لیے ہمیں ایک ایسا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ جہاں مختلف، بلکہ ایک دوسرے کے برعکس خیالات کو جانچا جاسکے، ان کا تقابلی جائزہ لیا جاسکے اور ان میں بہتری لائی جاسکے۔
کوئی ایک تحقیق بھی بہت ساری معلومات فراہم کرسکتی یے، لیکن ایک حقیقی تبدیلی کے لیے ہمیں ایسی کئی ساری تحاقیق کرنی ابھی باقی ہیں۔
منظم انداز میں پالیسیوں کو جانچنے کے عمل اور ٹھوس اعداد و شمار کی بنیاد پر انہیں درست ثابت کرنے سے ہم ایک ایسا ڈھانچہ کھڑا کرسکتے ہیں جس کی مدد سے ایسی بہترین اصلاحات کو لانا ممکن ہوسکے گا جو پائیدار ہوں اور بہتر سے بہتر کارکردگی کا باعث بنیں۔
یہ مضمون 27 مارچ 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں