تھائی لینڈ کے انتخابات میں فوج پر دھاندلی کا الزام
بنکاک: تھائی لینڈ کے سابق صدر تھاکسن شناوترا نے 2014 میں فوجی بغاوت کے ملک میں ہونے والے پہلے انتخابات میں فوج پر دھاندلی کا الزام عائد کیا ہے۔
الیکشن آفیشلز کی جانب سے جانب سے جاری کردہ ایوان زیریں کے غیرسرکاری نتائج کے مطابق انتخابات میں معمولی برتری کے باوجود فوج کی حمایت یافتہ جماعت اقتدار پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔
مزید پڑھیں: تھائی لینڈ: انتخابات میں فوج کی حمایت یافتہ پارٹی آگے
تاہم شناوترا نے نے مذکورہ پارٹی پر فتح کے لیے گندھے اور غیرپارلیمانی ہتھکنڈوں کے استعمال کا الزام عائد کیا۔
انہوں نے ہانک کانگ میں انٹرویو میں دیتے ہوئے کہا کہ تھائی لینڈ کے ساتھ ساتھ انتخابات پر عالمی سطح پر گہری نظر رکھنے والا ہر فرد یہ بات جانتا ہے کہ انتخابات میں بے ضابطگیاں کی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم اسے دھاندلی زدہ انتخابات قرار دیں گے جو تھائی لینڈ کے لیے اچھا نہیں ہے۔
اتوار کو فوج کے حوالے سے ہونے والے ریفرنڈم نئے قوانین کے تحت منعقد ہوئے جن کا مقصد سویلین حکومت میں منتقلی آسان بنانا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: تھائی لینڈ کی تاریخ میں پہلی بار مخنث خاتون وزیر اعظم کی امیدوار
ابتدائی طور پر حاصل ہونے والے فائدے کے باوجود ماہرین کا ماننا تھا کہ آمریت کے خلاف عوامی غم و غصے کے سبب فوج کی حمایت یافتہ جماعت ’پلنگ پرچارتھ پارٹی‘ (پی پی پی) کی کامیابی کے امکانات کم تھے اور عوامی سطح پر مقبول شناوترا کی جماعت کی کامیابی کے امکانات ظاہر کیے جا رہے تھے لیکن نتائج اس کے الٹ برآمد ہوئے۔
ابتدائی نتائج کے مطابق 2014 میں فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنے والے وزارت عظمیٰ کے امیدوار پریوتھ چینوچا کی جماعت آگے ہے۔
انتخابات میں ڈالے 90فیصد ووٹوں کی گنتی کے بعد آنے والے غیرسرکاری نتائج کے مطابق پریوتھ نے 76لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے۔ شناوترا کی جماعت پھیو تھائی نے 137 حلقوں میں سیٹیں جیتیں جبکہ اس کے مقابلے میں پلنگ پرچارتھ پارٹی نے 97 نشستوں پر کامیابی حاصل کیں لیکن شناوترا کی جماعت کو 5لاکھ کم ووٹ ملے۔
تاہم انتخابات میں اعدادوشمار کی بنیاد پر فوج کی حمایت یافتہ جماعت سبقت لے جائے گی جہاں کی جانب سے تعینات کردہ 250 سینیٹ اراکین کی بدولت پریوتھ چینوچا کو کو کامیابی کے لیے ایوان زیریں میں صرف 126 نشستوں کی ضرورت ہے جبکہ اس کے برعکس پھیو تھائی کو 376 نشستیں درکار ہیں۔
69سالہ شناوترا نے کہا کہ کسی بھی کھیل میں اگر قوانین اور ریفری شفاف نہیں ہوں گے تو نتائج کا احترام نہیں کیا جائے گا اور کہا کہ انتخابات میں یقیناً دھاندلی ہوئی۔
مزید پڑھیں: شہزادی کی انٹری سے تھائی لینڈ کی سیاست میں ہلچل
جب ان سے اس کا ثبوت مانگا گیا تو انہوں نے اہم صوبوں میں فوج کی حمایت یافتہ جماعت کو ملنے والے بھاری تعداد میں ووٹوں اور الیکشن حکام کی جانب سے بڑی تعداد میں ووٹوں کو مسترد کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ بیلٹ اور ووٹرز ٹرن آؤٹ کو دیکھیں تو متعدد صوبوں میں بیلٹ کی تعداد ووٹرز ٹرن آؤٹ سے زیادہ ہے۔