ڈونلڈ ٹرمپ نے گولان ہائٹس پر اسرائیل کے قبضے کو تسلیم کرلیا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے متنازع گولان ہائٹس کے علاقے پر اسرائیل کے قبضے کو باضابطہ طور پر تسلیم کرتے ہوئے اس کی دستاویزات پر دستخط کر دیئے۔
امریکی خبر رساں ادارے ’اے پی‘ کی رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے وائٹ ہاؤس کے دورے کے دوران دستاویزات پر دستخط کیے، اس اقدام نے امریکا کی پالیسی کو نصف صدی سے زائد عرصے پیچھے دھکیل دیا ہے۔
نیتن یاہو، متنازع گولان ہائٹس پر قبضہ تسلیم کروانے کے لیے کئی ماہ سے کوشش کر رہے تھے اور انتخابات سے چند ہفتے قبل ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اقدام سے انہیں سیاسی تقویت ملی ہے۔
اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ وہ غزہ کی جانب سے اسرائیل پر راکٹ حملے کے بعد واشنگٹن کا دورہ مختصر کر رہے ہیں۔
وہ گزشتہ روز 3 روزہ دورے پر واشنگٹن پہنچے تھے، دورے کے دوران انہوں نے امریکن ۔ اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی کی پالیسی کانفرنس سے خطاب کرنا تھا اور وائٹ ہاؤس میں عشائیے میں شرکت کرنی تھی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئی ٹوئٹ میں کہا تھا ’52 سال بعد وقت آگیا کہ واشنگٹن مکمل طور پر گولان ہائیٹس پر اسرائیلی عملداری کو تسلیم کر لے جو اسٹریٹجک اور سیکیورٹی کے تناظر میں اسرائیل اور خطے میں استحکام کے لیے ضروری ہے‘۔
مزید پڑھیں: امریکا، گولان ہائیٹس پر اسرائیلی کنٹرول تسلیم کرتا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ
خیال رہے کہ اسرائیل نے 1967 میں 6 روزہ جنگ کے دوران گولان ہائٹس، مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی پر قبضہ کیا تھا۔
تاہم عالمی برادری کی جانب سے ان علاقوں پر اسرائیل کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔
رواں برس مارچ میں سالانہ انسانی حقوق کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ امریکی محکمہ خارجہ نے لفظ ’اسرائیلی قبضہ‘ کے بجائے ’اسرائیلی کنٹرول‘ استعمال کیا، جو امریکی پالیسی میں واضح تبدیلی کی جانب اشارہ ہے۔
بعد ازاں فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نے امریکا کی جانب سے انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹ میں مغربی کنارے، غزہ کی پٹی اور گولن ہائٹس کو زیر قبضہ علاقے قرار نہ دینے کے اقدام پر تنقید کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فلسطینی صدر کی انسانی حقوق کی رپورٹ سے لفظ ’مقبوضہ ‘ ہٹانے پر امریکا پر تنقید
علاوہ ازیں گزشتہ برس جاری کی گئی رپورٹ میں معنی کے اعتبار سے متعلق ایک اور تبدیلی رواں برس کی رپورٹ میں بھی موجود تھی جس میں ایک حصے کا عنوان ’ اسرائیل، گولان ہائٹس، مغربی کنارہ اور غزہ ‘ تھا جبکہ اس سے قبل یہ عنوان ’اسرائیل اور زیرِ قبضہ علاقے‘ تھا۔
تاہم امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اصرار کیا کہ مختلف الفاظ کا مطلب پالیسی کی تبدیلی نہیں ہے۔
خیال رہے کہ 2017 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان بھی کیا تھا جس پر عالمی برادری کی جانب سے شدید تنقید کی گئی تھی۔