ہندو لڑکیوں کا مبینہ اغوا، رحیم یار خان سے نکاح خواں سمیت 7 افراد گرفتار
پولیس نے صوبہ پنجاب کے ضلع رحیم یارخان میں کارروائی کرتے ہوئے گھوٹکی سے دو لڑکیوں کے مبینہ اغوا اور جبری طور پر مذہب تبدیل کروانے میں سہولت کاری کے الزام کے تحت نکاح خواں سمیت 7 افراد کو حراست میں لے لیا۔
خیال رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے سندھ سے دو ہندو لڑکیوں کے مبینہ اغوا اور ان کی رحیم یار خان منتقلی کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب کو واقعے کی فوری تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے لڑکیوں کے بھائی اور والد کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر زیر گردش کر رہی تھیں جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ ان کی دو بیٹیوں کو اغوا کر کے ان پر اسلام قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے جبکہ دوسری جانب دونوں لڑکیوں کی ویڈیوز بھی زیر گردش کر رہی ہیں جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا۔
مزید پڑھیں: ہندو لڑکیوں کے مبینہ اغوا پر بیان، فواد چوہدری کا سشما سوراج کو کرارا جواب
وکیل اور سماجی رہنما جبران ناصر نے ٹوئٹر پر اس معاملے کو اٹھاتے ہوئے ویڈیو شیئر کی تھی اور بتایا کہ لڑکیوں کی عمریں 14 اور 16سال ہیں۔
ایک ویڈیو میں ایک قاضی کو لڑکیوں اور ان دو افراد کے ساتھ بیٹھے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جن سے ان کی شادی ہوئی۔
قاضی نے کہا کہ لڑکیاں اسلام سے متاثر ہوئیں اور الزام عائد کیا کہ لڑکیوں کے والدین غلط پروپیگنڈا کر کے انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
20 مارچ کو ہندو لڑکیوں کے اہلِ خانہ نے ان کے اغوا اور مذہب تبدیل کروائے جانے کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی تھی۔
گزشتہ رات ڈپٹی کمشنر سلیم اللہ اوڈھو اور سپرنٹنڈنٹ پولیس فرخ لنجار نے لڑکیوں کے والد سے ملاقات کی تھی اور لڑکیوں کی بازیابی میں حکومت اور پولیس کے مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی۔
پولیس کا کہنا تھا کہ انہوں نے پنجاب کے ضلع رحیم خان میں مختلف علاقوں میں چھاپے مارے جہاں سے انہیں معلوم ہوا کہ لڑکیوں کو گھوٹکی سے لایا گیا تھا جبکہ ان کا نکاح کروانے والے قاضی سمیت ان سے شادی کرنے والے دونوں نوجوانوں کے بعض رشتہ داروں کو بھی گرفتار کیا گیا۔
گرفتار مشتبہ ملزمان کو سندھ پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا ہے۔
ایس پی فرخ لنجار نے کہا کہ لڑکیوں کی بازیابی کے لیے جو اطلاع ملی اس پر کارروائی کی گئی، انہوں نےکہا کہ لڑکیوں کو جلد بازیاب کروایا جائے گا۔
صوبائی وزیر سید اویس شاہ نے لڑکیوں کے والد ہری لعل سے ملاقات کی، انہوں نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ پنجاب میں اپنے ہم منصب سے اس مسئلے پر رابطے میں ہیں۔
انہوں نے امید کا اظہار کیا کہ دونوں لڑکیوں کو جلد بازیاب کروایا جائےگا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم نے ہندو لڑکیوں کے مبینہ اغوا اور جبری مذہب تبدیلی کا نوٹس لے لیا
دوسری جانب مینگھوال برادری کے سربراہ شیو لال نے لڑکیوں کی بازیابی کی یقین دہانی کو صرف دلاسہ قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر لڑکیوں نے اسلام قبول کیا ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔
شیو لال نے کہا کہ ان کی مبینہ مذہب تبدیلی اور شادیوں کو عدالت میں چیلنج کیا جائے گا کیونکہ دونوں لڑکیاں 18 سال سے کم عمر ہیں۔