پاکستان کو نیوزی لینڈ سے سبق حاصل کرنا چاہیے
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم اور وہاں کے عوام نے ہمارے آگے شائستگی، دردمندی اور دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہونے کے سنہری معیارات پیش کیے ہیں۔
گزشتہ ہفتے کرائسٹ چرچ کی مساجد میں ہونے والے ہیبت ناک قتل عام پر ان کا جو رد عمل آیا، اس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔ کئی ملکوں کو نیوزی لینڈ سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر پاکستان کو۔
سیاہ چادر اوڑھے 38 سالہ وزیراعظم جیسنڈرا آرڈرن آس پاس کھڑی خواتین لواحقین سے جب گلے ملیں تب ان کا غم پوری طرح سے عیاں تھا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان ہم سے الگ نہیں۔ مقتولین کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے سادہ انداز میں لیکن سخت لہجے میں کہا کہ ’وہ ہم ہی ہیں‘۔
آسٹریلوی قاتل کو مخاطب ہو کر بولیں کہ ’تم نے بھلے ہی ہمیں چنا ہو، مگر ہم تمہیں قطعاً مسترد کرتے ہیں اور مذمت کرتے ہیں‘۔ بغیر بائبل اور خدا کے حوالے کے، آرڈرن نے محض 18 ماہ قبل ہی وزرارت عظمیٰ کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ اہمیت کا حامل مذہب نہیں ہوتا بلکہ دردمندی اہم ہوتی ہے۔
اس واقعے کے بعد ان کا ملک بھی ہر پل غم میں برابر کا شریک ہوا۔ اخبارات کے مطابق حملے کا نشانہ بننے والی 2 مساجد کے باہر اتنی بڑی تعداد میں پھول رکھے گئے کہ گل فروشوں کے پاس گل دستے ختم ہونے لگے، متاثرہ مسلمان خاندانوں کے لیے بڑی تعداد میں عطیات جمع ہوئے، چرچز میں خصوصی دعائیہ تقاریب کا انعقاد ہوا، جگہ جگہ مقتولین کی یاد میں شمعیں روشن کی گئیں۔ ایک پُرطیش سفید فام کم عمر لڑکا انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اس آسٹریلین سینیٹر کے منہ پر انڈا مارنے میں کامیاب رہا، جس نے کرائسٹ چرچ حملے کا الزام نیوزی لینڈ میں ہونے والی مسلمانوں کی ہجرت پر ڈالا تھا۔ سینیٹر نے فوراً اس لڑکے کو مکا دے مارا، وہ نوجوان اس مکے کا خیال ہمیشہ ایک قیمتی خزانے کی طرح رکھے گا۔
نیوزی لینڈ میں نظر آنے والے رد عمل اور پاکستان میں ہونے والے کسی بھی قتل عام کا تقابلی جائزہ کرلیجیے۔ 2014ء میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر تحریک طالبان پاکستان کے حملے کے سوائے مجھے کوئی ایک بھی ایسا بربریت سے بھرپور واقعہ یاد نہیں کہ جب عوامی سطح پر غیر معمولی غم و غصہ دیکھنے کو ملا ہو۔
مئی 2010ء میں جب لاہور میں واقع احمدیوں کی 2 عبادت گاہوں میں ایک ہی وقت میں حملہ ہوا جس کے نتجیے میں 94 افراد جاں بحق ہوئے تھے، تب ایسا کوئی ردعمل نظر نہیں آیا۔ نہ کسی وزیر، نہ کسی سیاستدان یا کسی دوسری اہم شخصیت نے لواحقین کو گلے سے لگایا۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے احمدی برادری کے پاس نہ جانا بہتر سمجھا۔ تاہم ان کے بڑے بھائی نواز شریف نے انہیں ہمارے ’بھائی بہن‘ پکارا، تو اس کے بعد ان کی اپنی جماعت میں سے ہی اس پر مذمت کی جانے لگی۔ حالانکہ حملے کے ملزمان میں سے جب ایک پر غالب آ کر پکڑا گیا اور نہتے عبادت گزاروں نے پولیس کے حوالے کیا گیا پھر بھی اسے بعد میں چھوڑ دیا گیا۔
ستمبر 2013ء میں پشاور کے آل سینٹس چرچ پر ہونے والے ایک بعد ایک خودکش بم حملے میں جانے والی جانوں کی تعداد ہیبت ناک حد تک زیادہ تھی۔ اس حملے کے نتیجے میں 127 افراد کی موت ہوئی یعنی کرائسٹ چرچ میں ہونے والی ہلاکتوں کے مقابلے میں اڑھائی گنا زیادہ۔ اس موقعے پر قومی رہنماؤں کی جانب سے پُرخلوص انداز میں درد مندی کا اظہار سامنے نہیں آیا۔ بم حملے کا نشانہ بننے والے چرچ کے باہر کھڑے عمران خان نے زندہ بچ جانے والوں سے کہا کہ ان پر یہ مصیبت امریکی ڈرون حملوں کی وجہ سے آئی۔ انہوں نے کہا کہ اس قسم کے مزید حملوں سے بچنے کے لیے پاکستان کو تحریک طالبان پاکستان (کہ جس نے چرچ پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی) سے مذاکرات کرنے چاہیے۔
ہم یہ کیسے جان سکتے ہیں کہ پاکستان کی اقلیتوں، احمدی، عیسائی، ہزارہ، ہندو، شیعہ، میں سے سب سے بڑی بربریت کا سامنا کس نے کیا؟ ایک مایوس کن عمل اقلیت کی جانب سے مرکزی دھارے سے گریز کرنا اور گم نامی کی راہ لینا ہے۔ اس کا اندازہ آج کل پیدا ہونے والے نومولود بچوں کے رکھے جانے والے ناموں سے صاف واضح ہوجاتا ہے۔
عیسائیوں کو ہی لیجیے۔ 1950ء کی دہائی میں کراچی کے عیسائیوں، بشمول وہ جو گارڈن ایسٹ نامی میرے محلے میں قیام پذیر ہیں، کے نام عام طور پر بائبل سے ماخوذ ہوا کرتے تھے۔ لڑکوں کے نام جیکب، جوزف، مائیکل، پاؤل، پیٹر، روبرٹ وغیرہ رکھے جاسکتے تھے۔ لڑکیوں کے نام اکثر و بیشتر میری، پاؤلین، ریچل، ریٹا، رتھ، وغیرہ ہوتے۔ مگر اب زیادہ ایسا معاملہ نہیں، عیسائی والدین محفوظ محسوس کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا ایمان، حنا، اقبال، مریم، نوید، صائمہ، شفقت، شہباز جیسے نام رکھے جاتے ہیں۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے منحرف ماحول کے حساب سے کیموفلاجنگ یا اپنا بھیس بدل کر رہا جاتا ہے۔
مگر رواں ماہ کی ابتدا میں، ایک خوش باش شادی شدہ عیسائی جوڑے اور ان کے تین بچوں کے لیے نام کا یہ فریب بھی کام نہ آیا، ان کے اہل خانہ کے تمام افراد کے نام عیسائیوں کے مخصوص ناموں سے الگ تھے۔ (ڈان کی پالیسی کے مطابق ریپ متاثر کا نام ظاہر نہیں کیا جاتا) انہیں اپنے اوپر آنے والی مصیبت کا کچھ زیادہ اندازہ نہ تھا۔ ان کے اسلام آباد کے ایک محلے میں ایک جنسی شکاری نے بیوی کا پیچھا کیا لیکن اس نے اسے جھڑک دیا۔ ہاتھ میں پستول تھامے اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ وہ شخص بعد میں ان کے گھر میں گھس آیا اور خاتون کو اغوا کرکے لے گیا۔ پولیس نے ابتدائی طور پر ایف آئی آر درج کرنے یا اس خاتون کو بازیاب کروانے سے انکار کردیا لیکن بالآخر دباؤ ڈالنے پر حرکت میں آئی۔
2 ہفتوں بعد مخبوط الحواس اور بوکھلائی ہوئی خاتون کو دارالامان میں منتقل کیا گیا۔ اس کے جسم میں گہرے زخم واضح طور پر دیکھے جاسکتے تھے، خاتون نے بتایا کہ اسے پورے 10 دنوں تک ریپ کیا جاتا رہا۔ پولیس نے طبی تحقیقات کروانے کی شوہر کی درخواست مسترد کردی کیونکہ ایک دستخط شدہ شواہد کے مطابق اس خاتون نے اسلام قبول کرلیا تھا اور وہ اب اغواکار کی بیویوں میں سے ایک تھی۔
چونکہ وہ خاتون دوبارہ قانونی طور پر عیسائی نہیں بن سکتی، اس طرح مسئلے میں بہت ہی زیادہ سنگینی پیدا ہوگئی ہے۔ دباؤ ڈال کر دستخط کروائے گئے، مذہبی تبدیلی دستاویز کی اہمیت رکھتے ہیں یا نہیں رکھتے ہیں۔ بلاشبہ عدالتوں کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا۔ مگر اس قسم کے مقدمات کی سست رفتاری کی وجہ سے فیصلہ آنے میں مہینوں سے لے کر برسوں تک بھی لگ سکتے ہیں۔ دوسری طرف خاتون کا خاندان روپوش ہے جبکہ شکاری آزادانہ طور پر گھوم پھر رہا ہے۔
چلیے ایک قدم پیچھے کی طرف لیتے ہیں اور ایک لمحے کے لیے غور وفکر کرتے ہیں، 22 کروڑ کی آبادی میں جرم کی سنگین مثالیں تو لازمی ہوں گی، اب ایک واحد مثال کو لے کر وسیع تر فیصلہ دینا ٹھیک نہیں۔ اس سے زیادہ ایک قابل بھروسہ پرکھنے کا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ ارد گرد کے لوگوں کی جانب سے ہم گدازی کا مظاہرہ کس حد تک دیکھنے کو ملتا ہے اور ایک مذہبی اقلیت معاشرے میں خود کو کس طرح دیکھتی ہے۔ افسوس کے ساتھ اس معاملے میں بھی صورتحال کچھ اچھی نہیں۔
گزشتہ ہفتے (16 مارچ) کو اسلام آباد پریس کلب پر حالیہ اغوا کاری کے خلاف احتجاجی ریلی میں محض چند درجن افراد نظر آئے جن میں زیادہ تر عیسائی تھے۔
ایک کے بعد دوسرے، ہر مقرر نے یہ دعوی کیا کہ عیسائی اس قسم کی بدسلوکی کے مستحق نہیں کیونکہ ’ہم بھی پاکستان کے لیے لڑے تھے۔‘ ان کی اپلیں ٹھیک ’قائد کے پاکستان‘ اور ان کی 11 اگست 1947ء کی تقریر جیسی غیر یقین بخش اور قابلِ رحم تھیں۔ مگر ہمیں ان مایوس لوگوں سے صورتحال میں کچھ بہتری لانے کی کوششوں کے لیے چن چن کر ان باتوں کی یاد دہانی کروانے کی شکایت نہیں کرنی چاہیے۔ پاکستان کی اقلیتیں اکثریت کے پاؤں تلے زندگی گزارتے ہیں اور جانتے ہیں کہ وہ سچ نہیں بول سکتے۔
اگر امید کی ایک کرن نظر آئی تو وہ اسی اسلام آباد کے محلے سے ایک تنہا داڑھی والے امام کے وجود سے آئی۔ انہوں نے قرآن مجید کی آیت ’لا اکراہ فی الدین‘ (دین اسلام میں کوئی زبردستی نہیں ہے) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ زبردستی مذہب کی تبدیلی اسلام کے خلاف ہے۔ اب یہ سوچ ستاتی ہے کہ اس ایک سطر کی دلیل سے اس خاندان کا غم کس حد تک مٹانا ممکن ہوسکے گا۔
جیسے جیسے پوری دنیا میں نفرت کی دیواریں تیزی سے کھڑی کی جا رہی ہیں، ویسے ویسے شدت کے ساتھ اپنے آس پاس ان لوگوں کی تلاش شروع ہوجاتی کہ جو عقلمندانہ طور پر پیار اور ہمدردی کو ان دیواروں کو گرانے کے اوزار کے طور پر استعمال کرسکتا ہو۔
میں یہ امید رکھتا ہوں کہ کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی دن جیسنڈا آرڈرن کا نام نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کا سوچے گا اور میں یہ بھی امید کرتا ہوں کہ کسی نہ کسی دن پاکستان کو بھی ان جیسا ہی کوئی وزیراعظم نصیب ہوگا۔
یہ مضمون 23 مارچ 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔