اداریہ: ہم، ایک ’خوش و خرم‘ ملک
جب پاکستان پر یہ بات آشکار ہوئی ہوگی کہ وہ رواں سال خوش رہنے والے ممالک کی فہرست میں بہتری لانے والے صرف 20 ممالک میں سے ایک ہے تو پاکستان دنیا میں خوش لوگوں کے لگائے گئے اندازے سے بھی کہیں زیادہ خوش ہوا ہوگا۔
پاکستان نے گزشتہ مرتبہ کے 75ویں نمبر سے لمبی چھلانگ لگا کر رواں سال 67ویں نمبر آگیا۔ دراصل محسوس ایسا ہوتا ہے کہ جیسے جن لوگوں نے اس ملک نے یہ پوزیشن حاصل کی ہے ان میں سے چند کو چھوڑ کر زیادہ تر کو اپنی خوشی کا پتہ ہی نہیں۔ تصور کیجیے اگر ہمیں یہ پتہ ہوتا کہ ہم بہت خوش ہیں، تو یہ خبر بلاشبہ ہمارے لیے بہت ہی زیادہ مسرت کا باعث بنتی اور اس طرح شاید ہم اس فہرست میں اول نمبروں پر آنے والے اسکینڈی نیوین ممالک کے مدمقابل بھی آجاتے۔
تاہم پھر بھی اعداد وشمار کے شوقین افراد اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے خطے میں نمبروں کی بہت زیادہ سمجھ بوجھ نہ رکھنے والے رہنماؤں کے لیے یہ بات بے تحاشا باعث اطمینان ثابت ہونی چاہیے کہ ہم اپنے خطے کے گروپ میں اول آئے، اور وہ بھی اتنے بڑے فرق کے ساتھ جو اپنے اڑوس پڑوس کو حاسد بنانے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔
چلیے شروع کرتے ہندوستان سے جس کو ہم نے زبردست مات دی ہے۔ ہندوستان 140ویں نمبر پر ہے۔ افغانستان فہرست میں ہندوستان کے قریب 154ویں نمبر پر ہے، لیکن اس کے بعد ہمیں یہ جان کر ایک بار پھر سکون ملتا ہے کہ ہمارا دوست چین 93ویں نمبر پر آیا ہے، جہاں اسے ہم جیسی، شاید یہ جان کر جھٹکا لگے، مطمئن قوم کے ساتھ کی کمی بہت زیادہ محسوس ہوئی ہوگی۔
پاکستانیوں کے لیے ہر طرح سے مسرت کا باعث بننے والی یہ فہرست اقوام متحدہ کا ادارہ سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ سلوشن نیٹ ورک کی اچھی خاصی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ اقوام متحدہ اپنی اس سالانہ مشق میں 6 اشاریوں کی بنیاد پر 156 ممالک کی خوشی کا اندازہ لگاتی ہے، ان اشاریوں میں فی کس آمدن، متوقع زندگی، سماجی سپورٹ، آزادی، سخاوت اور کرپشن (امید ہے کہ کرپشن کی کمی کو ہی مدنظر رکھا جاتا ہوگا)۔
یہ تو صاف واضح ہے کہ پاکستان فہرست میں اپنی بہتر پوزیشن لانے کے لیے مذکورہ تمام شعبوں میں پہلے کے مقابلے میں زبردست بہتری لایا ہوگا۔
تاہم سنکیت (Cynicism) کو قابو میں لانے کے لیے اپنی صلاحیتوں پر بہت زیادہ اعتماد، تھوڑی سی زیادہ آزادی اور دریا دل خود اعتمادی کا مظاہرہ کرکے مستقبل میں خوشی کے ان پیمانوں میں اپنا نمبر اور بھی اوپر لے جایا جاسکتا ہے۔
یہ اداریہ 23 مارچ 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔