• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

افغان صدارتی انتخاب میں دوسری مرتبہ تاخیر کا اعلان

شائع March 21, 2019
افغانستان میں اکتوبر 2018 میں پارلیمانی انتخابات ہوئے تھے—فوٹو:رائٹرز
افغانستان میں اکتوبر 2018 میں پارلیمانی انتخابات ہوئے تھے—فوٹو:رائٹرز

افغانستان کے صدراتی انتخابات میں دوسری مرتبہ تاخیر کا اعلان کردیا گیا ہے جو اصل تاریخ سے پانچ ماہ بعد 28 ستمبر کو ہوں گے۔

خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق انڈیپنڈنٹ الیکشن کمیشن (آئی ای سی) کی جانب سے یہ اعلان امریکا اور طالبان کے درمیان 17 سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے ہونے والے مذاکرات کے بعد کیا گیا جس کا مقصد طویل جنگ کا خاتمہ ہے۔

خیال رہے کہ افغان صدارتی انتخاب شیڈول کےمطابق 20 اپریل کو طے تھا تاہم اس میں 31 دسمبر 2018 کو تبدیلی کا اعلان کرتے ہوئے 20 جولائی تک تاخیر کی گئی تھی اور اب 28 ستمبر تک مزید توسیع دی گئی ہے۔

مبصرین نے آئی ای سی کی جانب سے صدارتی انتخاب کے لیے دی گئی دونوں تاریخوں کو غیر حقیقی قرار دیا ہے کیونکہ افغانستان میں گزشتہ برس اکتوبر میں منعقدہ پارلیمانی انتخابات کے نتائج تاحال جاری نہیں کیے سکے ہیں۔

آئی ای سی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ‘انتخاب میں بڑے مسائل اور چیلنج ہے اس لیے مقررہ وقت میں انتخاب ممکن نہیں ہے’۔

مزید پڑھیں:افغانستان کا صدارتی انتخاب غیر معینہ مدت تک ملتوی

بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘انتخابی قانون کی بہتر انداز میں عمل درآمد اور ووٹرز کی رجسٹریشن سمیت شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے صدارتی انتخابات، غزنی کے پارلیمانی انتخابات اور صوبائی کونسل کے انتخابات 28 ستمبر ہوں گے’۔

آئی ای سی نے انتخابات کی تکمیل کے لیے حکومت اور عالمی برادری کے ساتھ ساتھ دیگر فریقین سے وقت پر فنڈز جاری کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ حکومت اس فیصلے کا احترام کرتی ہے اور ‘آئی ای سی کے ساتھ مکمل تعاون کے لیے تیار ہے’۔

یہ بھی پڑھیں:افغانستان: صدارتی انتخابات 3 ماہ کیلئے ملتوی

آئی ای سی کے اعلامیے میں امریکا اور افغان طالبان کے درمیان جاری مذاکرات کے حوالے سے کچھ نہیں کہا گیا ہے لیکن افغانستان میں جاری طویل جنگ کے خاتمے کے لیے امریکا نے طالبان سے قطر میں طویل مذاکرات کیے تھے۔

امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد نے طالبان سے طویل ترین مذاکرات کے بعد بڑی کامیابی کا دعویٰ کیا تھا اور طالبان ترجمان نے بھی مذاکرات میں پیش رفت کا اعلان کیا تھا تاہم کوئی حتمی معاہدہ طے نہیں پاسکا ہے۔

افغان حکومت کی جانب سے ان مذاکرات پر شدید تنقید کی گئی تھی کیونکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں اشرف غنی کی سربراہی میں افغان حکومت کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں:امریکا-طالبان مذاکرات میں 'بڑی کامیابی' کا دعویٰ

افغان مشیر قومی سلامتی حمداللہ محب نے گزشتہ ہفتے اپنے بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ زلمے خلیل زاد جان بوجھ کر افغان حکومت کو مذاکراتی عمل سے دور رکھ رہے ہیں کیوں کہ وہ افغانستان کے آئندہ وائسرائے بننا چاہتے ہیں۔

مذکورہ بیان پر امریکی حکومت کی جانب سے سخت ناراضی کا اظہار کیا گیا تھا اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے افغان سفیر کو طلب بھی کیا۔

امریکی مشیر قومی سلامتی جان بولٹن نے مذکورہ بیان کے بعد افغان مشیر قومی سلامتی کے ساتھ طے شدہ ملاقات منسوخ کردی اور انہیں بتایا گیا کہ ہوسکتا ہے انہیں مستبل میں امریکا آنے کے لیے ویزا ہی جاری نہ کیا جائے حالانکہ ان کی اہلیہ امریکی شہری ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024