بک ریویو: بھید
گزشتہ دنوں عاصم بٹ کا نیا ناول ’بھید‘ پڑھا۔ ناول کا نیا اندازِ بیان اور کہانی کا تنوع خوشگوار حیرت سموئے ہوئے ہے۔ ’بھید‘ اردو ناول نگاری میں ایک نئے تجربے کا اظہار ہے۔ ناول مختلف کرداروں کے ضمنی واقعات اور یک رخی کہانی کے بجائے بیک وقت مختلف کرداروں کی حکایتوں اور راوی اور قاری کے درمیان فاصلے کو کم کرنے کے ایک نئے اندازِ بیان پر استوار ہے۔
اردو کے نئے ناولوں میں روایتی بنت سے انحراف کرکے نئی تکنیک استعمال کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے جو خوش آئند ہے۔ ’بھید‘ اس رجحان میں ایک اہم اضافہ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس نئے انداز نے ناول کے امکانات میں کچھ اضافہ کیا ہے یا نہیں!
کہانی ایک روایتی اندازِ بیان سے ذرا ہٹ کر ہے۔ مختلف کرداروں کی کہانیاں ہیں، جو شہرِ لاہور کی گلیوں میں اپنے اپنے ماضی، اپنی اپنی خواہشات یا محرومیوں کے ساتھ، دھیمے انداز کے ساتھ اپنی اپنی کہانیاں سناتے ہوئے اصرار کرتے ہیں کہ ’یہاں سے شہر کو دیکھو!‘
ناول کی کہانی شہر کی گلیوں اور محلوں میں مختلف افراد کی زندگی کے مختلف ادوار کے گرد بظاہر آزادانہ طور پر رواں رہتی ہے۔ بہت سی کہانیاں تخلیق ہوکر بنا کسی کو سنائے معدوم ہوجاتی ہیں اور بیشتر کردار اس میں ظاہر ہوکر کسی روایتی انجام تک پہنچے بغیر غائب ہوجاتے ہیں، اور ان کے واقعات ضمنی واقعات کا درجہ اختیار کرلیتے ہیں۔ اگر ان ضمنی واقعات کے تانے بانے سے ہی ایک کہانی مرتب کی جاسکے تو ایسی تخلیق ناول کے امکانات کی کھوج میں ایک نیا تجربہ ہوسکتا ہے۔ محمد عاصم بٹ کا نیا ناول 'بھبید' کسی ایسے ہی بھید کا متلاشی ہے۔
انسانی زندگی میں ہر روز بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں اور ان میں سے کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو اس کی زندگی پر فیصلہ کن اور دُور رس اثرات مرتب کرتے ہیں۔ دیگر واقعات جو اس کی زندگی میں کسی فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی استعداد نہیں رکھتے، ضمنی واقعات کی طرح ہوتے ہیں۔ زندگی ضمنی واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ ناول کی کہانی عام طور پر ان واقعات کے تانے بانے سے بنتی ہے جو اہم ہوتے ہیں اور ان کی زندگیوں کے سفر کا تعین کرتے ضمنی واقعات کو غیر اہم سمجھ کر فراموش کردیا جاتا ہے۔ تاہم یہی ضمنی واقعات کسی کردار کی زندگی میں تسلسل پا جائیں یا ان کے حوالے سے واقعات کا کوئی اور سلسلہ جنم لے تو قصہ گوئی میں ان کے اہم ہونے کا امکان موجود رہتا ہے۔
ناول ’بھید‘ میں کہانی کو کچھ اس انداز میں بیان کیا گیا جس میں بہت سے اہم کردار اور واقعات یوں گزر جائیں کہ وقت گزرنے کے بعد ان کا کوئی سراغ ہی نہ ملے۔ جیسے وہ کسی اور دنیا میں، کسی اور سیارے پر اور کسی اور فرد کے ساتھ پیش آئے ہوں۔ ناول پلاٹ کی بندش سے قدرے آزاد ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ پلاٹ اگر کوئی ہے تو اس کو ڈھونڈنا قاری کی اپنی ذمہ داری ہے۔ اس میں کوئی یک رخی کہانی نہیں ہے، بلکہ مختلف کرداروں کی بظاہر بکھری ہوئی کہانیاں ایک پولی فونی (Polyphony) کی صورت، ایک موسیقی ترتیب دیتی ہیں۔
روایتی ناول کا پلاٹ کسی بھید کا پتہ دیتا ہے۔ اسے ناول کا ایک موہوم، مبہم یا گریزاں مرکز بھی کہا جاسکتا ہے۔ کہانی کار اس مرکز، اس بھید کے سراغ کی کچھ جھلکیاں دکھاتا ہے، مگر اس پر مکمل روشنی نہیں ڈالتا۔ کہانی کا جزوی ابہام برقرار رہتا ہے۔ کہانی کا کوئی سرا، عام طور پر ناول میں موجود مختلف کہانیوں میں کسی مشترکہ خیال اور اس کے بھید کو جزوی طور پر آشکار کرتا ہے۔ ناول ’بھید‘ کی کہانی میں راوی کا کردار بہت اہم ہے اور وہی ان تمام کرداروں میں باہم ربط کا اہتمام کرتا ہے۔ تاہم ناول میں خیال کی اس مشترک لہر کو مزید رواں اور روشن رکھنے کی ضرورت تھی جو قاری کو کہانی کے دوسرے کنارے تک لے جاسکے۔
ناول میں قاری اور راوی کے درمیان حدِ تقسیم کو ختم کرکے کہانی کو کسی حد تک ایک کھیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ راوی کے مکالماتی آہنگ میں مزاح کا عنصر ہے جو قاری کو کسی بھی لمحے اپنی دلچسپی کم نہیں ہونے دیتا۔ راوی بار بار یہ واضح کرتا ہے کہ یہ محض ایک کہانی ہے اور ایک گمشدہ مسودے کی صورت میں اسے ملی ہے، اور وہ شاید خود بھی اسی گمشدہ مسودے کا ایک کردار ہے۔
مصنف نے آغاز میں ہی یہ باور کروا دیا کہ کہانی کا یہ اندازِ بیان دانستہ ہے اور اسے اسی طور پر بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ کسی گمشدہ اور نامکمل ناول کا مسودہ ہے۔ جسے شاید ناول بھی کہا جا سکتا ہے اور اگر قاری اسے ناول سمجھنا چاہے تو یہ اس کی اپنی مرضی ہوگی۔
ناول کا نام: بھید
مصنف: محمد عاصم بٹ
صفحات: 224
اشاعت: 2015
ناشر: سنگ میل پبلیکیشنز لاہور
قیمت: 500 روپے