آصف زرداری اور بلاول بھٹو نے نیب کے سامنے بیانات قلمبند کرادیے
اسلام آباد: سابق صدر آصف علی زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پارک لین اسٹیٹ کرپشن کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں قومی احتساب بیورو (نیب) میں پیش ہوکر اپنے بیانات قلم بند کرادیے۔
اسلام آباد میں نیب ہیڈکوارٹرز میں شریک چیئرمین پیپلز پارٹی آصف زرداری اور بلاول بھٹو کی پیشی کے موقع پر اُن سے اظہار یکجہتی کے لیے جیالوں کی بڑی تعداد نیب آفس کے باہر جمع تھی۔
مزید پڑھیں: آصف زرداری، بلاول بھٹو کی نیب راولپنڈی میں ایک مرتبہ پھر طلبی
اس موقع پر جیالوں اور پولیس کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی اور مبینہ طور پر جیالوں کے پتھراؤ سے پولیس اہلکار زخمی ہوگیا جس کے بعد پولیس نے پیپلزپارٹی کے متعدد کارکنوں کو حراست میں لے لیا۔
چیئرمین پیپلزپارٹی اپنے والد آصف زرداری کے ہمراہ نیب آفس پہنچے تو وہاں موجود پیپلزپارٹی کے کارکنوں کی بڑی تعداد نے ان کا استقبال کیا، اس موقع پر جیالے زبردست نعرے بازی بھی کرتے رہے۔
بلاول اور آصف زرداری سے تفتیش
میڈیا رپورٹس کے مطابق بلاول بھٹو زرداری اور ان کے والد سے تفتیش کے لیے مجموعی طور پر 16 رکنی ٹیم تشکیل دی گئی اور دونوں سے علیحدہ علیحدہ ٹیموں نے نیب کی عمارت میں الگ الگ تفتیش کی جبکہ دونوں رہنماؤں کے آڈیو اور ویڈیو بیانات بھی ریکارڈ کیے گئے۔
ڈی جی نیب راولپنڈی عرفان منگی نے دونوں ٹیموں کی قیادت کی جبکہ بلاول بھٹو اور آصف زرداری دونوں کو متعدد سوالات پر مشتمل سوالنامے دیے گئے۔
آصف زرداری سے 11 اور بلاول بھٹو سے 5رکنی نیب کی ٹیم نے پارک لین کمپنی کے حوالے سے سوالات کیے، آصفہ بھٹو زرداری بھی اپنے بھائی بلاول کے ہمراہ تھیں۔
کسی دباؤ کے بغیر اپنا کام جاری رکھیں گے، نیب
بعد ازاں نیب کی جانب سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا کہ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف عی زرداری نیب میں پیش ہوئے جہاں نیب کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے ان سے تین مقدمات کے حوالے سے 2 گھنٹے تک تفتیش کی۔
نیب نے مقدمات کے حوالے سے ایک تحریری سوالنامہ بھی دیا اور ان سے 10 دن کے اندر سوالنامے کے جواب نیب راولپنڈی کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
قومی احتساب بیورو کے مطابق چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کی زیر سربراہی ہونے والی اس تحقیقات میں بلاول اور زرداری کی جانب سے آج دیے گئے جوابات اور سوالنامے کے ذریعے موصول ہونے والے جوابات کی روشنی میں انہیں نیب میں دوبارہ طلب کرنے کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔
نیب اعلامیہ میں کہا گیا کہ یہ انکوائری براہ راست چیئرمین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال کی زیرنگرانی کی جارہی ہے، نیب آئین و قانون کے مطابق تحقیقات کو انجام تک پہنچانے پر یقین رکھتا ہے اور کسی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کے لیے اپنا کام جاری رکھے گا۔
200 سے زائد جیالے گرفتار
ادھر پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس نے پیپلز پارٹی کے 200 سے زائد جیالے گرفتار کر لیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پر امن احتجاج کرنے والے 200 سے زائد جیالوں کو گرفتار کرنے کے ساتھ ساتھ 50 سے زائد کارکنوں کو لاپتہ کردیا گیا ہے۔
قمر زمان کائرہ نے کہا کہ تشدد، پتھراؤ اور لاٹھی چارج سے ہمیں روکا نہیں جاسکتا اور انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ گرفتار کارکنوں کو فوری رہا کرے۔
’حکومت میں بیٹھے لوگوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جا رہی‘
دوسری جانب پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ نے بلاول اور آصف علی زرداری کی نیب میں طلبی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ آئین اور قانون سب کے لیے ہونا چاہیے لیکن حکومت میں بیٹھے لوگوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جارہی۔
انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں جہاں کا کیس ہو وہیں چلنا چاہیے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سندھ اور اس کی عدالتوں پر اعتماد نہیں کیا جارہا۔
اس موقع پر انہوں نے نیب دفتر کے باہر پولیس کی جانب سے پیپلز پارٹی کارکنوں کی حراست کی بھی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ نیب کی آڑ میں انتشار اور گرفتاریوں کی کوشش کی جارہی ہے۔
خورشید شاہ نے کہا کہ نیب ہیڈکوارٹر کے باہر پیپلز پارٹی کے کارکنوں پر تشدد بدترین مثال ہے، کارکنان اپنے لیڈر کو ویلکم کرنے آئے تھے، اس طرح کے واقعات تو مارشل لاء کے دور میں بھی نہیں ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ جان بوجھ کر حالات خراب کیے جارہے ہیں لیکن ہمارے کارکنان ہر حالات کا مقابلہ کرنا جانتے ہیں، گرفتاریاں نئی بات نہیں، یہ ہم 50سالوں سے دیکھتے آرہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے رہنماؤں سعید غنی اور نیئر بخاری نے پیپلز پارٹی کارکنوں پر تشدد کرنے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
پارک لین اسٹیٹ کیس
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے ترجمان سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی تھی کہ 15مارچ کو نوٹس موصول ہونے کے بعد بلاول نے نیب کے سامنے پیش ہونے کا فیصلہ کیا ہے اور سابق چیئرمین سینیٹ اور وزیر قانون فاروق ایچ نائیک مقدمے میں پیپلز پارٹی چیئرمین کی نمائندگی کریں گے، آصف علی زرداری بھی نیب میں پیش ہوں گے۔
اس سے قبل اسلام آباد میں ایک کمپنی پارک لین اسٹیٹ پرائیویٹ لمیٹیڈ کی جانب سے مبینہ طور پر زمین کی خریداری کی تحقیقات کے سلسلے میں نیب نے گزشتہ سال 13دسمبر کو آصف علی زرداری اور بلاول دونوں کو راولپنڈی میں طلب کیا تھا البتہ صرف آصف علی زرداری عدالت میں پیش ہوئے تھے اور بلاول کی نمائندگی ان کے وکیل نے کی تھی۔
مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کو پارک لین فرم کی جانب سے مبینہ طور پر لیے گئے قرض کی تحقیقات کے سلسلے میں نیب نے طلب کیا تھا اور دعویٰ کیا کہ بلاول اس کمپنی کے معمولی شیئر ہولڈر اسی وقت بن گئے تھے جب ان کی عمر صرف ایک سال تھی۔
انہوں نے بتایا کہ یہ کمپنی آصف علی زرداری نے 31جولائی 1989 میں خریدی تھی اور جب 2008 میں انہوں نے صدر پاکستان کا عہدہ سنبھالا تو وہ کمپنی کی ڈائریکٹر شپ سے مستعفی ہوگئے تھے، بلاول بھٹو زرداری نے کبھی بھی ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام نہیں دیں اور شیئر ہولڈر کی حیثیت سے ان کا کمپنی کے روزمرہ کے معمولات سے کوئی لینا دینا نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: رئیل اسٹیٹ کیس: نیب نے آصف زرداری، بلاول بھٹو کو طلب کرلیا
مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ اس معاملے میں کوئی بھی عوامی پیسہ شامل نہیں اور یہ ایک نجی قرض تھا جو ایک پوائیویٹ بینک نے نجی کمپنی کو دیا، انہوں نے دعویٰ کیا کہ قرض کبھی بھی ڈیفالٹ نہیں ہوا اور اسے parthenon نامی کمپنی کی جانب سے لیا گیا تھا جو پارک لین لمیٹیڈ کی شراکت دار ہے، جس کمپنی کی جانب سے قرض لیا گیا تھا اس میں زرداری اور ان کے بیٹے کا کوئی کردار نہیں۔
ترجمان نے دعویٰ کیا کہ جس خاص ٹرانزیکشن کے بارے میں پیپلز پارٹی چیئرمین سے سوالات کیے جا رہے ہیں وہ ایک ایسے وقت میں کی گئی تھیں جب بلاول پاکستان میں بھی نہیں تھے اور بیرون ملک تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
اس سے قبل منگل کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل نیئر بخاری اور سیکریٹری جنرل پنجاب چوہدری منظور احمد نے نیب کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر بیگ نے مبینہ طور پر نیب کے ہاتھوں تذلیل کے سبب خودکشی کی جس سے نیب کے کام کے طریقہ کار پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس اسلام آباد منتقل، آصف زرداری کی حفاظتی ضمانت منسوخ
انہوں نے سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کے خلاف جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی کراچی سے راولپنڈی منتقلی پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ قانون کہتا ہے کہ ٹرائل اسی جگہ ہونا چاہیے جہاں جرم سرزد ہوا ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری، آصف علی زرداری اور فریال تالپور نیب اور عدالت میں پیش ہوں گے تاکہ اپنا دفاع کرتے ہوئے زبانی اور تحریری طور پر سوالات کا جواب دے سکیں اور کہا کہ زرداری اور فریال کے خلاف مقدمے بینکنگ کورٹس میں ہونے چاہئیں۔