اب فائنل میں ہوگا اصل مقابلہ
پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) ہو یا دنیا کی کوئی بھی لیگ، اس کا فائنل کن 2 ٹیموں کے درمیان کھیلا جانا چاہیے؟ بالکل ٹھیک کہا آپ نے، ان کے مابین جو سیزن میں سب سے عمدہ کارکردگی دکھائیں اور قسمت نہیں بلکہ صلاحیت کے بل بوتے پر فائنل تک آئیں۔ بات کریں پی ایس ایل 4 میں پرفارمنس کی تو اس بار سب سے آگے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور پشاور زلمی کی ٹیمیں رہیں اور یہی دونوں ٹیمیں حقیقی طور پر فائنل تک پہنچنے کی حقدار تھیں۔
دوسرے ایلی منیٹر میں تو پشاور زلمی نے اسلام آباد یونائیٹڈ کو کچل کر رکھ دیا۔ ایک یکطرفہ مقابلے میں انہوں نے ثابت کیا کہ وہ کھیل پر گرفت ایک مرتبہ مضبوط کرلیں تو پھر کھوتے نہیں۔ ناک آؤٹ میں کامیابی کے ساتھ پشاور نے اسلام آباد کے ہاتھوں پچھلے سال فائنل کی شکست کا بدلہ بھی لے لیا ہے۔
نیشنل اسٹیڈیم، کراچی میں ایک اور 'فُل ہاؤس' کے روبرو اسلام آباد صرف ٹاس ہی جیت پایا، بلکہ ان کا تو پہلے باؤلنگ کرنے کا فیصلہ بھی مکمل طور پر غلط ثابت ہوا۔ زلمی گویا بیٹنگ کی دعوت کے انتظار میں ہی تھے اور ’دعوتِ شیراز‘ سمجھ کر اسلام آبادی باؤلرز پر ٹوٹ پڑے۔ ایک اینڈ سے امام الحق نے 58 رنز کی عمدہ اننگز کھیلی تو دوسرے کنارے سے کامران اکمل نے طوفانی 74 رنز بنائے۔
دونوں کے مابین 135 رنز کی شراکت داری نے پشاور کو بہت مضبوط بنیاد فراہم کی۔ اب یہ کراچی کنگز کی ٹیم تو تھی نہیں کہ ایسے موقع ضائع کرتی۔ کیرون پولارڈ اور ڈیرن سیمی نے حالات کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور پی ایس ایل تاریخ کا دوسرا سب سے بڑا مجموعہ 214 رنز اکٹھا کر ڈالا۔ آخری 6 اوورز میں 75 رنز کے اضافے سے پشاور زلمی نے گویا کراچی کو پیغام دیا کہ اننگز کو اِس طرح اختتام تک پہنچاتے ہیں، ویسے نہیں جیسے گزشتہ ایلی منیٹر میں کنگز نے کیا تھا۔
بہرحال، 215 رنز کے ہدف تلے اسلام آباد سخت دباؤ کا شکار تھا اور ایک لمحےکے لیے بھی اس سے نکل نہیں پایا۔ نہ لیوک رونکی چل پائے، نہ ایلکس ہیلز اور نہ ہی آصف علی کہ جن کے نصیب میں صفر کی ہزیمت لکھی تھی۔ اسلام آباد نے 48 رنز کے بہت بڑے مارجن سے شکست کھائی اور یوں اس سال اپنے اعزاز کے دفاع میں بُری طرح ناکام ہوگیا۔
اب ایک مرتبہ پھر پاکستان سپر لیگ کے فائنل میں کوئٹہ-پشاور ٹکراؤ ہوگا۔ آخری مرتبہ دونوں کا فائنل میں مقابلہ 2017ء میں ہوا تھا اور پشاور نے کامیابی حاصل کی تھی، لیکن تب حالات کافی مختلف تھے۔ یہ پی ایس ایل کا پاکستان میں کھیلا جانے والا پہلا میچ تھا اور تب امن و امان کے حوالے سے بہت سے خدشات تھے۔ کوئٹہ کے تقریباً سارے ہی غیر ملکی کھلاڑیوں نے پاکستان آنے سے انکار کردیا تھا جبکہ پشاور زلمی اپنے کھلاڑیوں کو قائل کرنے میں کامیاب رہا۔ یوں ہمیں فائنل میں ایک 'بے جوڑ' مقابلہ دیکھنے کو ملا جس میں پشاور نے بہت آسانی سے کامیابی حاصل کی اور اپنا واحد پی ایس ایل ٹائٹل جیتا۔
لیکن اس مرتبہ کوئٹہ تمام کیل کانٹوں سے لیس ہے۔ اس کی تیاریوں کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رواں سیزن میں پشاور کوئٹہ کے خلاف تینوں میچز ہارا ہے۔ گلیڈی ایٹرز نے اپنے روایتی حریف کو نہ صرف کوالیفائر-1 میں شکست دی بلکہ اس سے پہلے راؤنڈ مرحلے کے دونوں مقابلوں میں بھی دھول چٹا چکی ہے۔ یعنی پشاور کو فائنل کے لیے بہت سوچ سمجھ کر میدان میں اترنا پڑے گا۔
ویسے پشاور زلمی کے کئی کھلاڑی اس وقت بھرپور فارم میں ہیں بالخصوص حسن علی، جو موجودہ سیزن میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باؤلر ہیں۔ ساتھ ہی وہاب ریاض کو طوفانی رفتار سے باؤلنگ کرواتے بھی دیکھا جا رہا ہے کہ جنہوں نے اسلام آباد کے خلاف میچ میں متعدد بار 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کو عبور کیا۔ یہی نہیں بلکہ ٹمل ملز اور کرس جارڈن کی صورت میں بھی مڈ سیزن میں 2 بہترین اضافے ہوئے اور ان کی آمد سے پشاور کی باؤلنگ مزید مضبوط ہو گئی ہے۔
بیٹنگ میں دیکھیں تو امام الحق اور کامران اکمل سے لے کر لوئر مڈل آرڈر میں کیرون پولارڈ اور ڈیرن سیمی، سب کی کارکردگی خوب ہے۔ بس فائنل میں پشاور زلمی کو کوئٹہ کے خلاف مسلسل 3 شکستوں کے نفسیاتی دباؤ سے نکلنا ہوگا کیونکہ یہ سب سے بڑا مقابلہ ہے، جس میں کامیابی پشاور کی تمام پچھلی شکستوں کے داغ دھو دے گی۔