نیوزی لینڈ کے مسلمانوں کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟
نیوزی لینڈ کے علاقے کرائسٹ چرچ میں جمعے کی نماز کے وقت دہشت گردوں کے قاتلانہ حملے میں کئی درجن افراد ہلاک اور زخمی ہوئے، جس کے حوالے سے وزیر اعظم وزیر اعظم جیسنڈا آرڈن نے اسے ملک کی تاریخ کا ’سیاہ ترین‘ دن قرار دیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق اس حملے کے بعد وہاں کی مسلمان برادری اب بھی سکتے میں ہے تاہم جنوبی بحرالکاہل کے جزیرہ نما ملک میں مسلم اقلیت کے حوالے سے چند حقائق یہ ہیں۔
آبادی
نیوزی لینڈ کی آخری مردم شماری 2013 میں ہوئی تھی جس کے مطابق وہاں 46 ہزار سے زائد مسلمان آباد ہیں جو کل آبادی کا ایک فیصد ہے۔
نیوزی لینڈ کے ادارہ شماریات (اسٹیٹس این زی) کے مطابق خود کو مسلمان بتانے والے افراد کی تعداد میں 2006 سے 2013 کے درمیان 28 فیصد اضافہ ہوا جن میں سے ایک چوتھائی نیوزی لینڈ میں ہی پیدا ہوئے تھے۔
نیوزی لینڈ میں کئی افراد دیگر مذاہب سے مسلمان ہوئے ہیں اور وہ یا تو وہیں کے مقامی ہیں یا یورپی نژاد ہیں۔
وزیر اعظم جیسنڈا آرڈن نے کرسٹ چرچ حملے کے بعد بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم 200 ذاتوں اور 160 زبانوں سے زائد پر مشتمل قابل فخر قوم ہیں، ہمارے اقدار ایک جیسے ہیں، اس سانحے سے متاثرہ برادری کے ساتھ پوری قوم کھڑی ہے‘۔
ہم آہنگی
حملے کے بعد نیوزی لینڈ کے اسلامک ایسوسی ایشن کے صدر مصطفیٰ فرخ نے کہا کہ ہم یہاں ہمیشہ سے محفوظ رہے ہیں۔
نیوزی لینڈ کے نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’یہاں کے مسلمانوں کو لگتا ہے کہ ہم دنیا کے سب سے محفوظ ملک میں رہتے ہیں اور ہمیں اس جیسا واقعہ ہونے کی کوئی امید نہیں تھی‘۔
انہوں نے کہا کہ ’نیوزی لینڈ میں مسلمان ایک صدی سے رہ رہے ہیں اور اس جیسا پہلے کبھی نہیں ہوا تاہم اس سے ہمارے اندر نیوزی لینڈ کے لیے جذبات تبدیل نہیں ہوں گے‘۔
وکٹوریہ یونیورسٹی کے اپلائیڈ کروس کلچرل ریسرچ (سی اے سی آر) کی 2010 کی رپورٹ کے مطابق نیوزی لینڈ میں مسلمان بہتر زندگی اپنا رہے ہیں اور انہیں ماؤری اور یورپی ساتھیوں کے مقابلے میں بہتر آمدنی مل رہی ہے۔
رویہ
دوسری جانب مسلم برادری کو نیوزی لینڈ میں چیلنجز کا سامنا ہے، سی اے سی آر کا کہنا ہے کہ مسلمان مہاجرین کو نیوزی لینڈ کے مقامی افراد کم ترجیح دیتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان اور انڈونیشیا جیسے ممالک سے نیوزی لینڈ ہجرت کرنے والے مہاجرین کو چین اور فلپائن جیسے دیگر ایشیائی ممالک کے مقابلے میں زیادہ منفی رویوں کا سامنا رہا۔
نیوزی لینڈ کے ہیرالڈ نیوزپیپر کی 2015 میں شائع ہونے والی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ایک گروہ کی صورت میں مسلمان دیگر مذہبی گروہوں کے مقابلے میں زیادہ اہل اور قابل تھے تاہم اس کے باوجود انہیں روزگار تلاش کرنے میں زیادہ مشکلات تھیں۔
کشیدگی
حالیہ برسوں میں نیوزی لینڈ کی مسلمان برادری میں کشیدگی اس وقت سامنے آئی تھی جب 2006 میں نیوزی لینڈ کے اخبار اور ٹی وی اسٹیشنز پر توہین آمیز خاکے شائع اور نشر کیے گئے تھے۔
اس واقعے کے بعد وہاں کی مسلمان برادری میں شدید غم و غصہ سامنے آیا تھا جبکہ کئی مظاہرے بھی کیے گئے تھے۔
نیوزی لینڈ کی اس وقت کی وزیر اعظم ہیلن کلارک نے میڈیا کی آزادی کے حق کا دفاع کرتے ہوئے کارٹون کا فیصلہ ’بغیر سوچے سمجھے‘ اور ’بلا وجہ‘ قرار دیا تھا۔
ہیلن کلارک نے اس حملے کے حوالے سے بیان جاری کرتے ہوئے اسے ’گھناؤنا جرم‘ قرار دیا۔
ایک ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ’دہشت گردوں کے حملے پر وہ اب بھی حیرت میں ہیں‘۔
انہوں نے متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار بھی کیا۔
تبصرے (1) بند ہیں