کراچی کو ہارنا ہی چاہیے تھا؟
کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں موجود 32 ہزار تماشائی ’یہ کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟‘ کی عملی تصویر بنے ہوئے تھے کیونکہ ان کے چہیتے کراچی کنگز، لگا کے وِنگز اُڑ چکے تھے، سب کو لے کر نہیں بلکہ اکیلے۔ ایک یادگار شام کا یہ بھیانک انجام کیسے ہوا؟ مختصراً کہا جائے تو جیت میں اسلام آباد یونائیٹڈ کا اپنا کردار کم اور کراچی کے کھلاڑیوں کی غائب دماغی کا زیادہ تھا۔
خود ہی اندازہ لگا لیجیے کہ کراچی کنگز نے ٹاس جیت کر پہلے خود کھیلنے کا فیصلہ کیا اور جب پاور پلے اپنے اختتام کو پہنچا تو اسکور 78 رنز کو چھو رہا تھا۔ جی! صرف 6 اوورز میں 78 رنز، وہ بھی صرف ایک وکٹ کے نقصان پر۔ لگ رہا تھا کہ اسلام آباد والوں کے ہاتھ پیر پھول چکے ہیں کیونکہ انہوں نے کیچ تک چھوڑنا شروع کردیے تھے۔
پہلے 10 اوورز میں صرف ایک وکٹ پر 100 رنز بنانے کے باوجود آخر تک صرف 161 رنز بنیں تو 2 باتیں ثابت ہوتی ہیں یا تو بیٹنگ کرنے والی ٹیم نااہل ہے، یا پھر باؤلنگ کرنے والوں نے بہت عمدہ پرفارم کیا ہے۔ یہاں دونوں باتیں ہوئیں، کراچی کے آنے والے بلّے باز بھی فیصلہ کُن وار نہ کرسکے جبکہ اسلام آبادی باؤلرز نے زبردست باؤلنگ بھی کروائی خاص طور پر نوجوان محمد موسیٰ نے کہ لیام لوِنگسٹن اور کولن انگرام کی قیمتی وکٹیں لے کر کراچی کو سخت دھچکا پہنچایا۔
لیکن ایسا نہیں کہ کراچی یہیں سے مقابلے سے باہر ہوگیا۔ باؤلنگ میں بھی انہیں بہترین مواقع ملے، جب عمر خان کی باؤلنگ کی بدولت وہ 9ویں اوور تک اسلام آباد کی 3 وکٹیں صرف 63 رنز پر لے چکا تھا۔ زبردست نعروں کی گونج میں اسلام آباد کی آدھی ٹیم ٹھکانے لگ چکی تھی جب آخر میں 15 گیندوں پر 35 رنز کھا بیٹھا اور یوں کراچی میچ ہار کر اعزاز کی دوڑ سے باہر ہوگیا۔
یہ اسلام آباد یونائیٹڈ کی معمولی کامیابی نہیں تھی کیونکہ اُن کا مقابلہ محض کراچی کے 11 کھلاڑیوں سے نہیں تھا، بلکہ یہ 32 ہزار 11 سے مقابلہ تھا۔ نیشنل اسٹیڈیم میں نیلے رنگ کی بہار تھی اور ’کراچی! کراچی!‘ کے نعروں سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔
جہاں محض گیند ضائع ہونے پر آسمان سر پر اٹھا لیا جائے، وہاں جیتنا آسان نہیں ہوتا لیکن اسلام آباد نے ثابت کیا کہ وہ اعصابی طور پر زیادہ مضبوط تھے، خاص طور پر ابتدائی دھچکوں کے بعد وہ بخوبی مقابلے میں واپس آئے۔ ویسے کراچی اور اسلام آباد تینوں سیزنز میں پلے آف مرحلے میں ٹکرائے ہیں اور 2017ء کے سوا ہر بار کامیابی نے یونائیٹڈ کے ہی قدم چومے ہیں بلکہ دونوں بار اسلام آباد چیمپئن بھی بنا ہے۔
اِس سیزن میں اسلام آباد کے ہاتھوں تینوں میچز میں شکست کی وجوہات جو بھی ہوں، کراچی کی مجموعی کارکردگی بالکل ویسی ہی رہی، جیسی رہتی ہے۔ کوئی اسٹار پلیئر نہیں چلا، جو کامیابیاں حاصل کیں وہ چند کھلاڑیوں کی انفرادی کوشش کا نتیجہ تھی۔ ہوسکتا ہے کچھ لوگ کہیں کہ بابر اعظم کی کارکردگی تو اچھی تھی؟ ہوگی، سیزن میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑیوں میں وہ تیسرے نمبر پر ہیں لیکن غور سے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ 200 سے زیادہ رنز بنانے والوں میں سب سے کم اسٹرائیک ریٹ بابر اعظم کا ہی ہے کہ جنہوں نے 11 میچز میں 115 کے اسٹرائیک ریٹ سے 335 رنز بنائے۔
ان کے علاوہ کولن انگرام اور لیام لوِنگسٹن اچھا تو کھیلے لیکن میچ وِننگ پرفارمنس اکّا دکّا ہی رہیں۔ ’گیم چینجر‘ کولن منرو تو پورے سیزن میں چل کرنہیں دیے، 8 اننگز میں صرف 95 رنز اور بس۔ باؤلرز میں تمام اسٹرائیک باؤلرز فیصلہ کن مرحلے پر ناکام دکھائی دیے۔
عثمان شنواری اور محمد عامر بھی ایک دو میچز کے علاوہ کچھ نہ کرسکے بلکہ عثمان کی کارکردگی کو تو مایوس کُن کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ اسی میچ کو لے لیں کہ جہاں انہوں نے 3 اوورز میں 42 رنز کھائے۔ خود کپتان عماد وسیم کی کارکردگی بھیانک رہی، بیٹنگ میں صرف 115 رنز اور باؤلنگ میں محض 5 وکٹیں اور اس پر طرّہ یہ کہ کپتانی بھی کچھ خاص نہیں رہی۔
کراچی کنگز کا واحد روشن پہلو نوجوان عمر خان تھے۔ صرف 19 سال کے اس باؤلر کو کسی نے ‘giant slayer’ کا نام دیا ہے کیونکہ عمر نے اس مرتبہ بہت بڑے بڑے کھلاڑیوں کی وکٹیں لیں جیسا کہ سیزن کے سب سے کامیاب بیٹسمین شین واٹسن کو 2 مرتبہ آؤٹ کیا اور کُل 15 شکاروں میں چند نمایاں نام اے بی ڈی ولیئرز، لیوک رونکی، شعیب ملک، عمر اکمل، رائلی روسو، جیمز وِنس اور کوری اینڈرسن کے رہے۔ اس اہم مقابلے میں بھی عمر نے بہترین باؤلنگ کی اور اپنے 4 اوورز میں صرف 16 رنز دے کر 2 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔
بہرحال، اہم کھلاڑیوں کی عدم کارکردگی، کمزور قائدانہ فیصلے، فیصلہ کُن مراحل پر گرفت حاصل نہ کر پانا اور سب سے بڑھ کر غلطیوں سے سبق نہ سیکھ پانا ایسے ’جرائم‘ ہیں جن کی ’سزا‘ یہی ہے جو کراچی کنگز کو ملی ہے اور ان وجوہات کو دیکھیں تو یہی سمجھ آتا ہے کہ کراچی کو ہارنا ہی چاہیے تھا۔
خیر، اب وہی ‘usual suspects’ میدان میں بچے ہیں یعنی وہی پرانے اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ، ان کے درمیان ٹائٹل کے لیے رسہ کشی پہلے سیزن سے جاری ہے اور اب بھی ہے۔ کوئٹہ تو فائنل میں پہنچ چکا، اب دیکھنا یہ ہے کہ اسلام آباد اس بار پشاور زلمی سے کس طرح نمٹتا ہے۔ پہلے سیزن میں اسلام آباد نے ایلی منیٹر میں ہی زلمی کو باہر کیا تھا؟ کیا اس مرتبہ بھی وہی تاریخ دہرائی جائے گی؟
تبصرے (1) بند ہیں