• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

الیکشن کمیشن اراکین کا تقرر 45 دن کی آئینی مدت میں نہ ہوسکا

شائع March 12, 2019
وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان مشاورت تک الیکشن کمیشن اراکین کی تقرری نہیں ہو سکتی — تصویر بشکریہ الیکشن کمیشن آف پاکستان
وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان مشاورت تک الیکشن کمیشن اراکین کی تقرری نہیں ہو سکتی — تصویر بشکریہ الیکشن کمیشن آف پاکستان

اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان کے 2 اراکین کا آئین کے تحت مقرر کردہ 45 دن کی ڈیڈ لائن میں تقرر نہ ہوسکا اور اب تک اس سلسلے میں وزیر اعظم اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے درمیان مشاورت کا عمل بھی شروع نہیں ہوسکا۔

الیکشن کمیشن کے اراکین کی تقرری کے لیے وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان مشاورت کا عمل لازمی ہے اور اس کے بغیر اراکین کا تقرر نہیں کیا جا سکتا۔

مزید پڑھیں: 2 اراکین کی ریٹائرمنٹ کے باعث الیکشن کمیشن کا کام متاثر

22ویں ترمیم کے بعد آئین کے آرٹیکل 215 (4) میں کہا گیا ہے کہ کمشنر کے دفتر یا رکن کی آسامی کو 45 دن کے اندر پُر کرنا لازمی ہے۔

26 جنوری کو سندھ اور بلوچستان کے اراکین کی ریٹائرمنٹ کے بعد الیکشن کمیشن 6 ہفتوں سے نامکمل ہے۔

الیکشن کمیشن کے سینئر عہدیدار نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ آنے والے مہینوں میں کمیشن کو چند اہم سرگرمیاں انجام دینی ہیں جس میں بلوچستان، خیبر پختونخوا اور کنٹونمنٹ میں بلدیاتی انتخابات شامل ہیں، جس کے باعث ان دونوں اراکین کی فوری تعیناتی درکار ہے۔

انہوں نے کہا کہ تقرریوں کے سلسلے میں اب تک وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان مشاورت کا عمل شروع نہ ہونے پر الیکشن کمیشن کے لیے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔

آئین کے تحت الیکشن کمیشن ایک چیف الیکشن کمشنر اور چار اراکین پر مشتمل ہوتا ہے جس میں سے ہر رکن کا تعلق ایک صوبے سے ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن کے 3 اراکین کی تعیناتی غیر آئینی ہونے کا انکشاف

2 اراکین کے دفتر میں تقرر کی نصف مدت مکمل ہونے کے بعد ریٹائرمنٹ کا طریقہ کار 22ویں ترمیم کے ذریعے وضع کیا گیا تاکہ الیکٹورل باڈی کے کام کو مستقل مزاجی سے یقینی بنایا جا سکے۔

آئین کا آرٹیکل 215 اپنی ترمیمی شکل میں کہتا ہے کہ کمشنر یا رکن اس آرٹیکل کے تحت دفتر میں آنے کے 5 سال تک اس عہدے پر برقرار رہے گا۔

اس آرٹیکل سے منسلک شرط میں کہا گیا ہے کہ ’اس بات کا انحصار اس پر ہوگا کہ اراکین میں سے 2 اپنی ابتدائی ڈھائی سالہ مدت کی تکمیل کے بعد ریٹائر ہو جائیں گے اور بقیہ 2 اگلی ڈھائی سالہ مدت کے بعد ریٹائر ہوں گے، مزید یہ کہ دفتر میں پہلے 2 ریٹائر ہونے والے اراکین کے بارے میں اس بات کا فیصلہ کمیشن کرے گا کہ پہلے کسے ریٹائر ہونا ہے‘۔

البتہ ترمیم شدہ قانون کے تحت یہ کام محض ایک دفعہ کیا جائے گا تاکہ مستقبل میں تمام اراکین اپنی 5 سالہ مدت پوری کر سکیں۔

مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن کے سندھ، بلوچستان کے اراکین سبکدوش

قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے چیف الیکشن کمشنر اور 2 اراکین کی ریٹائرمنٹ سے قبل ہی نئی تقرریوں کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے دی تھی، 12 رکنی کمیٹی نے وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کو چیئرپرسن منتخب کیا تھا لیکن پارلیمانی پینل اسی وقت عمل کر سکتا ہے جب وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف میں کسی نام پر اتفاق ہو یا دونوں فریقین الگ الگ فہرست ارسال کر دیں۔

آرٹیکل 213 اور 218 کے تحت اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کے بعد وزیراعظم چیف الیکشن کمشنر یا کمیشن کے اراکین کے انتخاب کے لیے 3 نام میں سے کسی ایک نام کی تصدیق کے لیے فہرست پارلیمانی کمیٹی کو بھیجتے ہیں۔

اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے بنائی جانے والی پارلیمانی کمیٹی آدھے اراکین حکومتی بینچر سے منتخب کرتی ہے جبکہ بقیہ کا انتخاب اپوزیشن جماعتیں کرتی ہیں اور پارلیمنٹ میں ان کی طاقت کی بنیاد پر متعلقہ پارلیمانی لیڈرز انہیں نامزد کرتے ہیں۔

اگر وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر میں اتفاق نہ ہو تو قانون کے مطابق دونوں رہنما الگ الگ فہرستیں جائزے کے لیے پارلیمانی کمیٹی کو بھیجیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن سے متعلق پارلیمانی کمیٹی: شیریں مزاری بلا مقابلہ چیئر پرسن منتخب

ابھی تک اس سلسلے میں مشاورت کے آغاز کا کوئی عندیہ نہیں ملا، اگر غیر معینہ تعطل کے بعد ایسا ہوتا بھی ہے تو وزیر اعظم عمران خان اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے درمیان کشیدہ تعلقات کے باعث دونوں کے درمیان نامزدگیوں پر براہ راست بات چیت کا امکان نہیں اور بہر صورت یہ دونوں اپنے قریبی دوستوں کے ذریعے بالواسطہ مشاورت ہی کریں گے۔

دوسری جانب الیکشن کمیشن اراکین کے تقرر کے لیے قائم پارلیمانی پینل منگل کو ملاقات کر رہا ہے تاہم اس اجلاس کی وجہ جاننے کے لیے کمیٹی کی چیئرپرسن ڈاکٹر شیریں مزاری دستیاب نہیں ہو سکیں۔


یہ خبر 12 مارچ 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024