نواز شریف اپنے اصولوں پر قائم ہیں، ڈیل کا تاثر نظر نہیں آتا، بلاول بھٹو زرداری
لاہور: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سابق وزیر اعظم نواز شریف سے کوٹ لکھپت جیل میں ملاقات کی اور ان کی عیادت کی۔
بلاول بھٹو کی لاہور کی کوٹ لکھپت جیل آمد کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے اور چیئرمین پی پی پی کے ہمراہ پولیس اہلکار بھی موجود تھے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کرنے کے لیے آنے والے بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ پیپلز پارٹی کے پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ، مصطفیٰ نواز کھوکھر اور دیگر رہنما بھی موجود تھے۔
ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ آج میں نواز شریف کی صحت کا پوچھنے آیا تھا، یہ میرے لیے ایک تاریخی دن ہے کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو اور آصف زرداری نے اسی جیل میں وقت گزارا تھا، اسی طرح پیپلز پارٹی کے کارکنان بھی یہاں سیاسی قیدی رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: نواز شریف نے درخواست ضمانت کیلئے دوسری مرتبہ عدالت سے رجوع کرلیا
انہوں نے کہا کہ کافی افسوس ہوا کہ ملک کا 3 مرتبہ وزیر اعظم رہنے والا کوٹ لکھپت جیل میں سزا بھگت رہا ہے، ان کی بیماری کی خبروں پر ان سے ملنے کےلیے کوٹ لکھپت جیل آیا، سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن ہمارا مذہب اور ثقافت ہمیں اس بات کی اجازت دیتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکمرانوں کو بھی پہلے انسان ہونا چاہیے اور بعد میں حکمران، کسی قیدی کے ساتھ اس طرح نہیں ہونا چاہیے اور جب قیدی بیمار ہو تو اسے بہترین سہولیات فراہم کرنا حکومت کا فرض ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ دل کے مریض کو زیادہ دباؤ ڈال کر علاج نہیں کرسکتے، یہ ایک طرح کا تشدد ہے، نواز شریف سے جب ملا تو وہ کافی بیمار لگ رہے تھے، میں ان کی صحت کے لیے دعا کرتا ہوں اور ساتھ ہی مطالبہ کرتا ہوں کہ 3 مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کو بہترین علاج معالجہ فراہم کیا جائے اور مجھے امید ہے کہ انسانی بنیادوں پر وزیر اعظم اور ان کی حکومت اس پر غور کرے گی کہ کس طرح اس معاملے کو حل کرے۔
انہوں نے کہا کہ جب بھارت کے ساتھ ایسا ماحول ہے اور ہم انسانی حقوق کی بات کر رہے تو یہ ہمارے لیے بھی مشکل ہوجاتا کہ 3 مرتبہ وزیر اعظم رہنے والا اس طرح جیل میں ہو۔
ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ میثاق جمہوریت پر نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے 2006 میں دستخط کیا، ملک کو صحیح سمت میں ڈالا اور ایک ضابطہ اخلاق بنایا کہ سیاست دان آپس میں کیسے چلیں گے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی ناکامی ہے کہ ہم نے اس میثاق جمہوریت پر پورا عمل نہیں کیا، ہم نے عدالتی اصلاحات پر کام نہیں کیا، تاہم پیپلز پارٹی یہ سوچ رکھتی ہے کہ اس پر دوبارہ غور کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ آج کی سیاسی مشکلات اور کمزوریوں کا حل نکالنا چاہیے اور ایک نئی دستاویز تیار کرنا چاہیے جو میثاق جمہوریت کو آگے بڑھائے۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ میں صرف نواز شریف کی طبیعت کا پوچھنے آیا، تاہم ظاہر سی بات ہے کہ اس موقع پر دوسری باتیں بھی ہوئیں۔
نواز شریف کے لندن جانے کی قیاس آرائیوں سے متعلق سوال پر بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ میرے والد آصف علی زرداری نے بغیر کسی جرم کے 11 سال جیل میں گزارے، بعد میں انہیں انہی کیسز میں باعزت بری کیا گیا لیکن اس عرصے میں یہی کہا جاتا رہا کہ پرویز مشرف کے ساتھ ڈیل ہوگئی اور ہم بھاگ رہے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ نواز شریف کے خلاف بھی لوگ سازش کر رہے ہیں لیکن اب وہ نظریاتی بن گئے ہیں اور مجھے نہیں لگتا کہ کوئی ڈیل ہوئی ہے اور نواز شریف سمجھوتہ کرنے کو تیار ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: بلاول بھٹو سے قبل وزیر اعلیٰ پنجاب کے مشیر کی نواز شریف سے ملاقات
انہوں نے کہا کہ نواز شریف اپنے اصولوں پر قائم ہیں اور مسلم لیگ (ن) بھی اپنے اصولوں پر قائم رہے گی۔
ایک سوال کے جواب میں چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ عمران خان کا تنقید کرنا غلط اور غیر سیاسی فیصلہ تھا، اپنی تقریر کے دوران میں نے بھارت کے خلاف بڑا سخت موقف لیا اور تنقید کرنا یا اپنا موقف دنیا میرا حق ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ میری تقریر کے بعد شاہ محمود قریشی کی تقریر بہت اچھی تھی اس سے ایک قائدانہ پیغام گیا لیکن بدقسمتی سے اسد عمر کی تنقید پر سمجھ نہیں آئی کہ وہ میری تقریر پر کہہ رہے تھے یا شاہ محمود قریشی کی۔
انہوں نے کہا کہ اگر انگریزی پر تنقید کر رہے تھے تو مجھ سے زیادہ شاہ محمود قریشی نے انگریزی میں بات کی لیکن ’ہمارے پڑھے لکھے جاہل وزیر اسد عمر کو مسئلہ ہورہا تھا کہ میں انگریزی میں بات کر رہا تھا، انہیں میرے بھٹو استعمال کرنے پر تکلیف ہورہی تھی، نہ میں نے کوئی ایسا نوٹیفکیشن نکالا کہ میرا یہ نام استعمال کریں، سیاست میں اتنی منافقت نہ کریں۔
وزیر اعظم کی تھر کی تقریر پر چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ اس تقریر سے اتحاد ختم ہوگیا، دنیا میں برا پیغام گیا لیکن میری تقریر پر اسد عمر اور عمران خان کی تقریر سے برا تاثر جارہا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ کوٹ لکھپت جیل کا دورہ کسی اتحاد نہیں بلکہ عیادت کے لیے تھا، اس موقع پر اتحاد کی بات کرنا قبل از وقت ہوگی۔
میثاق جمہوریت کے حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ ہماری کوشش ہوگی کہ ہم سیاسی جماعتوں سے بات کریں گے لیکن بطور پارٹی تحریک انصاف کا اس میں شامل ہونے کا امکان نہیں۔
سابق وزیر اعظم کی صاحبزادی کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ میں نہیں سمجھتا کہ مریم نواز خاموش ہوئی ہیں، وہ اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں، وہ اپنے والد کا خیال رکھتی ہیں، ان کی اور بھی مصروفیات ہوں گی لیکن ان کے بیانات بھی آتے رہتے ہیں۔
خیال رہے کہ چیئرمین پیپلز پارٹی کی جانب سے ہفتے کو محکمہ داخلہ پنجاب کو درخواست دی تھی کہ وہ سابق وزیر اعظم نواز شریف سے کوٹ لکھپت جیل میں ملنا چاہتے ہیں۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ، پیپلز پارٹی سینٹرل پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ، سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر اور جمیل سومرو بھی ہوں گے۔
محکمہ داخلہ پنجاب نے پیپلز پارٹی کی اس درخواست کو منظور کرلیا تھا، تاہم بعد ازاں پیپلز پارٹی نے اس وفد میں مزید 2 افراد کو شامل کرنے کی درخواست کی تھی جسے منظور کرلیا گیا تھا۔
ادھر اس ملاقات کے حوالے سے پیپلز پارٹی کی جانب سے واضح کیا گیا تھا کہ ’بلاول بھٹو کی نواز شریف سے ملاقات کا مقصد محض ان کی مزاج پراسی ہے‘۔
مزید پڑھیں: کوٹ لکھپت جیل میں قید نواز شریف کو دل کی تکلیف
پیپلز پارٹی کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ملاقات کے لیے کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں، نواز شریف کی طبیعت ناساز ہے اور انہیں صحت کی بہتر سہولیات حاصل کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بلاول بھٹو کی ملاقات سے قبل پنجاب حکومت بھی اس معاملے میں مبینہ طور پر کافی متحرک نظر آئی اور وزیر اعلیٰ کے مشیر شہباز گل نے جیل میں مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف سے ملاقات کی تھی اور انہیں ملک میں موجود صحت کی بہتر سہولیات فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی۔
سابق وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز شریف کے مطالبے پر حکومت نے پہلے ہی جیل میں ایک صحت کا یونٹ قائم کردیا تھا ،جہاں مختلف اوقات میں 3 ماہر امراض قلب موجود رہیں گے۔
خیال رہے کہ کرپشن کیس میں کوٹ لکھپت جیل میں 7 سال قید کی سزا کاٹنے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو دل اور گردے کے مسائل کا سامنا ہے، وہ جیل سے باہر کسی بھی ہسپتال میں منتقل ہونے سے انکار کرچکے ہیں اور کہتے ہیں کہ حکومت (غیر متعلقہ) ہسپتالوں میں انہیں لے جاکر صرف ہمدردی دکھا رہی ہے اور ایک کے بعد دوسرا میڈیکل بورڈ بنایا جارہا ہے لیکن بورڈز کی تجاویز پر عمل نہیں کیا جارہا۔