پاک امریکا تعلقات نیا رخ اختیار کرنے والے ہیں، شاہ محمود قریشی
ملتان: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات فنانشل ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے اقدام کے باعث سرد مہری کا شکار تھے لیکن امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں پاکستان کے کردار کی بدولت امریکا کے ساتھ تعلقات میں نئے موڑ کا آغاز ہونے جارہا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپنے حلقہ انتخاب این اے-156 میں حامیوں اور صحافیوں کی منعقدہ ایک تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے افغانستان کے حوالے سے امریکا طالبان مذاکرات، کشمیر کے معاملے پر بھارت کے ساتھ حکومتی حکمتِ عملی اور ہمسایہ ممالک کے تعلقات کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی۔
انہوں نے کہا کہ ’امریکا کی جانب سے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں درج کرنے کے نتیجے میں دونوں ممالک کے تعلقات اچھے نہیں رہے لیکن ہماری کامیاب خارجہ پالیسی کے سبب دونوں ممالک کے تعلقات بہتری کی طرف گامزن ہیں‘۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا نے پاکستان کو 15 سال تک امداد دے کر بیوقوفی کی۔
امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے پسِ پردہ پاکستان کے کردار کے تناظر میں ان کا کہنا تھا کہ ’امریکا کے ساتھ ہمارے تعلقات نیا رخ اختیار کرنے والے ہیں، دوحہ میں امریکا طالبان مذاکرات جاری ہیں جس سے مثبت نتائج کی توقع ہے‘۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ’افغانستان میں امن بحال ہونے کی صورت میں ناصرف پاکستان وسطی ایشیا سے سستی توانائی خرید سکتا ہے بلکہ اس سے ملکی معیشت بھی مضبوط ہوگی اور برآمدات میں اضافہ ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں جاری طویل جنگ کے دوران کہا جاتا رہا ہے کہ دہشت گرد پاکستان سے آکر ان کے ملک میں کارروائیاں کرتے ہیں لیکن یہ اصل میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی سوچی سمجھی پالیسی تھی تاکہ پاکستان کو دنیا میں تنہا کیا جاسکے لیکن وہ اس میں ناکام ہوگئے۔
پاک بھارت حالیہ کشیدگی کے حوالے سے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان خطے میں امن چاہتا ہے لیکن کشمیر پر سمجھوتہ نہیں کرے گا، ہم نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا معاملہ اقوامِ متحدہ سمیت ہر سطح پر اٹھایا ہے۔
ایران کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہمارے لیے اہمیت کے حامل ہیں اور ہم نے ہر اس کوشش کو ناکام بنا دیا جس سے ہمارے درمیان تلخیاں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، میری ایرانی وزیر خارجہ سے 3 ملاقاتیں ہوئیں اور تینوں کا ماحول خوشگوار تھا‘۔
عرب ممالک کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ ’جب پاکستان تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالا تو سعودی عرب ہماری بات سننے کے لیے تیار نہیں تھا جبکہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ بھی تعلقات اچھے نہیں تھے‘۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب پر حوثی باغیوں کے ڈرون حملے، پاکستان کا اظہار تشویش
تاہم یمن اور سعودی عرب سے باہمی تعلقات ہونے کی بنا پر پاکستان نے اس مسئلے پر متوازن پالیسی اپنائی اور وزیر اعظم عمران خان نے خصوصی طور پر یہ کہا کہ پاکستان دونوں ممالک کے درمیان اس تنازع کا حصہ نہیں بن سکتا بلکہ ثالث کا کردار ادا کرسکتا ہے‘۔
اپنے خطاب میں روس کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’حالیہ پاک بھارت کشیدگی کو کم کرنے میں روس کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جبکہ روس نے خاص طور پر خطے میں امن برقرار رکھنے کے لیے کردار ادا کرنے کا اعلان بھی کیا ہے‘۔