دنیا میں تیزی سے سامنے آنے والی موسمیاتی تبدیلی کس حد تک خطرناک؟
رواں سال کے آغاز سے ہی دنیا کے مختلف علاقاجات سے خبریں سننے کو مل رہی ہیں۔ کہیں برفیلے طوفانوں نے ڈیرہ جمایا ہوا ہے تو کہیں جنگلات میں آگ لگی ہوئی ہے۔
یقیناً یہ دونوں صورتیں اس کرہ ارض پر پائے جانے والے سرد و گرم موسموں کی انتہاء ہیں لیکن جہاں سائنسدان اس امر کی وجہ فلکیاتی و ماحولیاتی نظام کو قرار دیتے نظر آتے ہیں تو وہیں سوشل میڈیا پر کئی لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان موسمی تبدیلی کو دیکھ کر تو لگتا ہے جیسے سائنس کی کتابیں پڑھائے جانے والا ’گلوبل وارمنگ’ کا کانسپٹ جھوٹ کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
ظاہر ہے کہ جب دنیا میں ایسی تبدیلیاں رونما ہوں گی تو عام شہری حیران ہوجائیں گے لیکن کچھ افواکار اسی حیرانی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، بنا ماحول اور موسم کا فرق سمجھے، سائنسی کانسپٹ کو غلط ٹہراتے ہیں۔
مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ کے باعث سبزیوں کی پیداوار میں کمی کا امکان
واضع رہے کہ سائنسی کانسپٹ کو غلط ٹہرانے کے لئے مکمل ریسرچ کرکے شواہد اکھٹے کرنے پڑتے ہیں اور پھر اپنی بات کو تمام ثبوتوں کے ساتھ سائنٹفک کمیونٹی کے سامنے ثابت کرنا پڑتا ہے۔
فلکیاتی رو سے یہ بات اتنی حیرت انگیز نہیں ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جب زمین کے شمالی حصے میں موسم گرما ہوتا ہے تو جنوبی حصّے میں لوگ سردیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین کا محور ایک سیدھ میں نہیں ہے بلکہ 23.5 ڈگری جھکا ہوا ہے اور اسی وجہ سے جب زمین سورج کے گرد چکر لگاتی ہے تو اس کا ایک قطب سورج کی طرف اور دوسرا سورج سے دور ہوتا ہے۔
جو قطب سورج کی طرف ہوتا ہے اس حصے میں سورج کی روشنی زیادہ پڑنے کے باعث جو حصہ گرم ہوتا ہے. جب شمالی نصف کرہ میں موسم گرما ہوتا ہے تو سورج کی طرف ہونے کی وجہ سے اس حصے میں دن کا دورانیہ زیادہ اور راتیں چھوٹی ہوتی ہیں جبکہ اسی وجہ سے جنوبی نصف کرہ میں دن، سورج سے دور ہونے کی وجہ سے، چھوٹے اور سرد ہوتے ہیں۔
آج کل زمین اپنے مدار میں اس مقام پر ہے جب شمالی نصف کرہ سورج دور ہے اور جنوبی نصف کرہ سورج کی طرف رخ کئے ہے، اس وجہ سے شمالی نصف کرہ میں گرمی اور شمالی نصف کرہ میں سردی پڑرہی ہے۔
اب اکثر لوگ اس شش و پنج میں مبتلا ہوں گے کے موسم گرم اور سرد تو ٹھیک ہے لیکن 1980ء کے بعد سے سردی اور گرمی میں شدت کیوں آئی ہے؟ تو اس کا آسان جواب یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر کے ممالک میں احتجاج ہوتے ہیں اور اس میں سڑکوں پر ٹائر جلانے کا رواج بہت عام ہے اور یہی سب ان موسمی تبدیلیوں کی سب سے بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ ان ٹائروں کے جلنے سے یا گاڑیوں سے پیدا ہونے والا دھواں فضا میں موجود قدرتی کاربن ڈائی آکسائڈ کی مقدار کو بڑھاتا جارہا ہے جس کی وجہ سے سورج کی وہ روشنی (گرمائش) جو زمین کے گرد موجود ہوائی کرہ میں داخل ہو تو جاتی ہے لیکن اس کاربن ڈائی آکسائڈ کی موٹی تہہ کی وجہ سے خلا میں اس کا اخراج نہیں ہوپاتا۔ اس وجہ سے یہ گرمائش ہوائی کرہ میں قید ہوجاتی ہے۔ اس وجہ سے زمینی ماحول میں گرمی میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ اس قدرتی عمل کو سائنسی اصطلاح میں "گلوبل وارمنگ" کہا جاتا ہے لیکن کیا سردی میں شدت کی وجہ بھی یہی ہے؟
جی ہاں! موسم سرما کا دورانیہ پہلے سے کم تو ہوا ہے لیکن سردی میں شدت آگئی ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے زمین کے قطبین پر موجود برف تیزی سے پگل رہی ہے اور ساتھ ہی آبی بخارات بھی فضا میں شامل ہو رہے ہیں۔ ان آبی بخارات کی وجہ سے بادل وجود میں آتے ہیں جو کہ خشکی پر برستے ہیں۔ آج کل شمالی نصف کرہ میں موسم سرما ہونے کی وجہ سے جب یہ بادل امریکی ریاستوں پر برسے تو انہوں نے برف کی شکل اختیار کرلی اور پارا منفی ٥٠ ڈگری تک کی نچلی سطح تک گر گیا لیکن اگر یہی بادل اگر موسم گرما میں برستے تو برف کے بجاے شدید بارشیں ہوتی جس کے بعد امریکا سیلاب زدہ ہوجاتا۔
یہ بھی پڑھیں: انسانی سرگرمیاں ہی گلوبل وارمنگ کی وجہ ہیں ، اقوامِ متحدہ
اسی طرح 20 جنوری کو آسٹریلیا کے جنگلات میں آگ لگ گئی تھی اور وہاں پارا 48.9 ڈگری کی بلند ترین سطح تک جاپہنچا۔ یاد رہے کہ آسٹریلیا جیسے ملک کے اوپر، جہاں آلودگی کم سے کم ہے، "ازوون ہول" بھی ہے جس کی وجہ سے شہریوں کو جلد کے کینسر کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ یہ ازوون ہول گلوبل وارمنگ کی وجہ سے بنتا ہے لیکن آسٹریلیا میں تو آلودگی ہی نہیں ہے پھر یہ ازوون ہول کیسے بنا؟ ازوون ہول کے لئے ضروری نہیں ہے کہ جس جگہ آلودگی ہو وہ وہی پیدا ہو بلکہ شمالی نصف کرہ میں موجود براعظموں میں سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والے ممالک جن میں پاکستان، چین اور انڈیا شامل ہیں، کی وجہ سے یہ ازوون ہول آسٹریلیا کے اوپر بن گیا کیونکہ سائنس کے مطابق ہوا زیادہ پریشر (جہاں ہوا کثیر تعداد میں موجود ہو) سے کم پریشر (جہاں ہوا قدر کم ہو) کے ریجن کی طرف چلتی ہے لہذا اشیا اور یورپ میں پیدا ہونے والا دھواں آسٹریلیا (کم پریشر والی جگہ) میں چلا گیا اور ازوون ہول بنا دیا۔
گلوبل وارمنگ کی وجہ سے زمین کے گرد اوزوں گیس کی اس حفاظتی تہہ میں اوزوں ہول تو بن گیا ہے لیکن اس کے علاوہ زمین کے مختلف حصوں میں ہونے والی ان ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث زمینی قطبین پر موجود گلیشیرز کی برف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سمندری پانی میں تبدیل ہورہی ہے۔ اس سے نہ صرف برفانی علاقاجات میں رہنے والے جانوروں کی زندگی خطرے میں ہے بلکہ سمندر میں پانی کے بڑھتے ہوئے لیول سے سمندر کے کنارے یا اس کے بیچ واقع ممالک کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ ماہرین کے مطابق اگلے 50 سالوں میں مالدیپ جیسے صنعتی ملک کو سمندر اپنے آغوش میں لے لے گا۔
یہاں ایک اور بات قابل غور ہے کہ اکثر لوگ موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی تبدیلی کو ایک ہی اصطلاح کے طور پر استعمال کرتے ہیں لیکن درحقیقت ان دونوں میں بہت فرق ہے۔ سائنسی اصطلاح میں موسم فضا میں روز بروز ہونے والی تبدیلیوں کا نام ہے جس میں موسم سرما، گرما، بہار اور خزاں شامل ہیں جبکہ ماحول کئی دہایوں کے عرصے پر محیط موسمی تبدیلیوں کے پیٹرن کو کہا جاتا ہے۔ مثلا گلوبل وارمنگ ایک ماحولیاتی تبدیلی ہے جس کی وجہ سے سال ٢١٠٠ تک سمندر کا پانی تقریبا 4 فٹ بلند ہوجائے گا اور کیونکہ ہر سال زمینی ماحول میں گرمی بڑھتی جا رہی ہے۔ گلوبل وارمنگ کی ہی وجہ سے موسم گرما جہاں پہلے مارچ سے ستمبر تک ہوتا تھا، اب فروری سے نومبر تک ہوتا ہے۔
اسی وجہ سے "گلوبل وارمنگ" سے نجات کے لئے صرف آسٹریلیا، یا صرف امریکا کی کوششیں رنگ نہیں لایں گیں بلکہ پوری دنیا کو ایک ہو کر اس کی روک تھام کے لئے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
سید منیب علی فورمن کرسچن کالج یونیورسٹی، لاہور میں بی. ایس. فزکس کے طالب علم، اسٹروبائیولوجی نیٹ ورک آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ہیں.انہیں علم فلکیات کا بہت شوق ہے اور اس کے موضوعات پر لکھنا ان کا من پسند مشغلہ ہے. ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں [@muneeb227][10]
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔