حماد اظہر، مفتی عبدالرؤف سمیت کالعدم تنظیموں کے 44 کارکنان زیرحراست
سیکیورٹی اداروں نے کارروائی کرتے ہوئے حماد اظہر اور مفتی عبدالرؤف سمیت کالعدم تنظیموں کے 44 افراد کو ’اصلاحی حراست‘ میں لے لیا۔
وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) کو لاگو کرنے کے حوالے سے وزارتِ داخلہ میں اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہوا جس میں کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں اور کارکنان کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
بیان میں یہ بتایا گیا کہ قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کے اجلاس کے دوران بھی این اے پی کا جائزہ لینے کے بعد یہ فیصلہ لیا گیا تھا کہ کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں اور کارکنان کو اصلاحی حراست میں لینے کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔
وزیرِ مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی اور سیکریٹری داخلہ سلیمان خان نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مذکورہ اقدام کے حوالے سے تصدیق بھی کی۔
مزید پڑھیں: حکومت نے کالعدم تنظیموں کے اثاثے منجمد کرنے کیلئے حکم جاری کردیا
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سلیمان خان نے کہا کہ ہم یہ تاثر نہیں دینا چاہتے کہ یہ کارروائی صرف ایک تنظیم کے خلاف ہورہی ہے۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ جب افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ان کے نام پلوامہ حملے پر بھارت کی جانب سے دیے جانے والے ڈوزیئر میں شامل ہیں۔
تاہم ان کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ان افراد کی گرفتاری کو ڈوزیئر سے جوڑنا بالکل غلط ہے۔
سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ گرفتار ہونے والے افراد میں کالعدم جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کے بیٹے حماد اظہر اور بھائی مفتی عبدالرؤف شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کا عسکری تنظیموں کے خلاف حتمی کارروائی کا فیصلہ
خیال رہے کہ رواں برس 14 فروری کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں بھارتی فورس کی گاڑی پر ہونے والے ریموٹ کنٹرول حملے میں 44 فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔
نئی دہلی نے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے اس حملے کا الزام بغیر تحقیق کے پاکستان پر عائد کردیا تھا، جسے پاکستان نے مسترد کردیا تھا۔
بعدازاں وزیرِاعظم پاکستان عمران خان نے اپنے خطاب میں نئی دہلی پر زور دیا تھا کہ اگر اس کے پاس اس حملے میں پاکستانیوں کے ملوث ہونے کے شواہد ہیں تو وہ اسلام آباد کو فراہم کرے۔
تاہم پریس کانفرنس کے دوران وزیرِ مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے کہا کہ کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں اور کارکنان کو حراست میں لینے کا فیصلہ پاکستان کا ہے اور یہ کارروائی آئندہ 2 ہفتوں تک جاری رہے گی جبکہ اس کی تفصیلات تمام متعلقہ اداروں کو بھی فراہم کی جائے گی۔