ہندو برادری سے متعلق متنازع بیان پر صوبائی وزیر اطلاعات مستعفی
لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ’ہندو برادری سے متعلق متنازع بیان پر‘ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور پنجاب کے صوبائی وزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان کا استعفیٰ منظور کرلیا۔
اس حوالے سے وزیراعلیٰ کے ترجمان شہباز گل نے تصدیق کی کہ پارٹی قیادت نے فیاض الحسن چوہان کے بیان کا سخت نوٹس لیا اور عثمان بزدار نے فیاض الحسن چوہان کا استعفیٰ منظور کرلیا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیرامور کشمیر کی فیاض الحسن چوہان کے متنازع بیان کی مذمت
انہوں نے بتایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب اپنے سابق وزیرکے بیان پر ہندوبرادری سے معذرت خواہ ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز فیاض الحسن نے لاہور میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کیا تھا جس میں پلوامہ حملے کے بعد بھارت کی پاکستان میں دراندازی کی کوشش کے جواب میں انہوں نے سخت الفاظ میں بھارتیوں کے بجائے ہندوؤں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
ان کے بیان کی ویڈیو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر وائرل ہوگئی جس پر صارفین نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور حکومت سے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔
بعدازاں قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اقلیتی رکن ڈاکٹر درشن اور کھئیل داس کوہستانی نے فیاض الحسن چوہان کے خلاف قرارداد میں وزارت سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کیا۔
مزیدپڑھیں: نازیبا گفتگو پر فیاض الحسن چوہان کی نرگس اور میگھا سے معافی
قرارداد میں صوبائی وزیر اطلاعات کے بیان کی شدید مذمت کی گئی اور مطالبہ کیا گیا کہ فیاض الحسن چوہان اپنے الفاظ پر پاکستانی ہندوؤں سےمعافی مانگیں‘۔
قرار داد کے متن میں کہا گیا کہ ’فیاض الحسن چوہان نے 50لاکھ محب وطن ہندو برادری کی دل آزاری کی۔
دفتر خارجہ کی وضاحت
فیاض الحسن چوہان پر نہ صرف خود اپنی ہی جماعت 'پی ٹی آئی' کے سینئر رہنماؤں کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا بلکہ ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے بھی اپنے ایک پیغام میں ان کے بیان کی نفی کی۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان فخریہ طور پر اپنے پرچم میں موجود سفید حصے کو اسی طرح اپناتا ہے جس طرح سبز حصے کو۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم اپنی ہندو برادری کی خدمات کی قدر کرتے ہیں اور انہیں اپنا سمجھ کر عزت دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ہندو مذہب سے متعلق توہین آمیز مواد شائع کرنےوالوں کےخلاف کریک ڈاؤن کا حکم
تحریک انصاف کا ردعمل
اس سلسلے میں پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹس سے کیے گئے ٹوئٹ میں کہا گیا کہ تحریک انصاف سوشل میڈیا ان توہین آمیز ریمارکس کی مذمت کرتی ہے، ٹوئٹ میں قائدِ اعظم محمد علی جناح کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ’آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات اور نسل سے ہو، ریاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں‘۔
چیئرمین عمران خان کے موقف کا ذکر کرتے ہوئے پی ٹی آئی نے لکھا کہ قائد کے اصولوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے وزیراعظم نے ہمیشہ اقلیتوں کو وہ مقام دیا جس کے وہ پاکستان میں حقدار ہیں۔
دوسری جانب پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کر کے صریح الفاظ میں فیاض الحسن چوہان کے بیان کی مذمت کی۔
ان کا اپنے پیغام میں کہنا تھا کہ ’کسی کو بھی کسی کے مذہب کو ہدف تنقید بنانے کا حق حاصل نہیں، ہمارے ہندو شہریوں نے اپنے ملک کے لیے قربانیاں دیں'۔
وزیر اعظم عمران خان کے راواداری اور احترام کے پیغام کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ ہم کسی طور بھی مذہبی تعصب اور منافرت کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔
مزید پڑھیں: اسلام کی آڑ میں توہین آمیز زبان کے استعمال کی اجازت نہیں، سپریم کورٹ
دوسری جانب وزیر اعظم کے معاون برائے سیاسی امور نعیم الحق نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ فیاض الحسن چوہان کا بیان سخت کارروائی کا متقاضی ہے اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی مشاورت سے صوبائی وزیر کے خلاف اقدام اٹھایا جائے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت ایک سینئر حکومتی رکن یا کسی کی بھی جانب سے فضول بیان بازی کو برداشت نہیں کرے گی۔
اس کے علاوہ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے بھی ردعمل میں دیے گئے اپنے پیغام میں صوبائی وزیر پنجاب کو بآور کروایا کہ پاکستان کا پرچم صرف سبز نہیں بلکہ یہ اقلیتوں کی نمائندگی کرنے والے سفید رنگ کے بغیر نامکمل ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہندو پاکستانی قوم کے تانے بانے کا اسی طرح حصہ ہیں جس طرح میں ہوں۔
فیاض الحسن کے دیگر متنازع بیانات
گزشتہ برس اگست میں فیاض الحسن چوہان کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں وہ ایک تقریر میں پاکستان فلم انڈسٹری اور اداکارہ نرگس اور میگھا کے خلاف نازیبا گفتگو کرتے نظر آئے تھے۔
ویڈیو میں انہوں نے عید الاضحیٰ پر ریلیز ہونے والی فلم ’جوانی پھر نہیں آنی-2‘ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ کیا کوئی وکھری(weird) جوانی ہے جو سینما گھروں پر آئی ہوئی ہے، کیا یہ انسانیت ہے؟ آدھی ننگی عورتوں کی تصاویر پرنٹ کرکے سینما گھروں کے باہر لگادی ہیں، ایسے لوگوں کے لیے وہ ٹوٹے(porn) موجود ہیں جو وہ دیکھ لیتے ہیں‘۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’میری کوشش تھی کہ یہ معاملہ میری وزارتی حدود میں آتا، تو پھر میں نرگس کو حاجی نرگس نہ بناتا اور میگھا سال کے 3 نہیں 300 روزے نہ رکھتی تو آپ مجھے کہتے‘۔
بعدازاں اکتوبر میں فیاض الحسن چوہان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شریف خاندان کے ساتھ ’کشمیری‘ لفظ کو طنزیہ لہجے میں استعمال کیا تھا جس کے بعد لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے دونوں اطراف سمیت دنیا بھر میں موجود کشمیریوں میں غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ان کی یہ گفتگو وائرل ہوئی تھی جس میں پنجاب کے وزیر کر امتیازی رویہ برتنے پر آڑے ہاتھوں لیا گیا تھا۔