امریکا-طالبان مذاکرات کے نئے مرحلے کا آغاز
واشنگٹن: امریکا اور طالبان کے نمائندوں میں مذاکرات کے نئے مرحلے کا آغاز دوحہ میں ہوگیا ہے جبکہ امریکا کی جانب سے افغان امن لیے مقرر کیے گئے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ سست لیکن مستحکم اقدامات عمل میں لائے جارہے ہیں۔
انہوں نے جمعرات کے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا کہ مذاکرات کار 3 روزہ مذاکرات کے بعد 2 روز کا وقفہ لے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم امن کے لیے سست مگر مستحکم اقدامات کر رہے ہیں‘۔
مذاکرات میں امریکی ٹیم کی سربراہی کرنے والے زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ دونوں اطراف سے 4 اہم امور پر غور کیا جارہا ہے جن میں امریکی فوج کا افغانستان سے انخلا، طالبان کی القاعدہ اور داعش کی جنگ میں معاونت، جنگ بندی اور حکومت سمیت تمام افغان اداروں کی مذاکرات میں شمولیت شامل ہے۔
مزید پڑھیں: افغانستان میں امن عمل کیلئے زلمے خلیل زاد کے نئے سفارتی مشن کا آغاز
خلیل زاد کا کہنا تھا کہ ’دوحہ میں مذاکرات کے بحال ہونے کے ساتھ ساتھ افغانستان کی اندرونی سطح پر طالبان سے بحث اور مذاکرات کے لیے کابل میں ٹیم تشکیل دی جارہی ہے‘۔
قطر میں طالبان ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ معاہدے کا ابتدائی مسودہ تیار ہے اور مذاکرات کے اس مرحلے میں اسے حتمی شکل دی جائے گی۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے نمائندے اور ناروے کی حکومت مذاکرات میں تکنیکی معاونت فراہم کر رہی ہے۔
نیو یارک ٹائم کا کہنا تھا کہ دوحہ میں مذاکرات کے شرکا 5 سال میں تمام امریکی افواج کے انخلا پر ایک منصوبہ تشکیل دینے کا کام کر رہے ہیں۔
پینٹاگون کی جانب سے تیار کیے گئے اس منصوبے کے تحت تمام غیر ملکی افواج کو افغانستان سے 5 سال میں نکلنا ہوگا۔
تاہم طالبان حکام نے صحافیوں کو بتایا کہ انخلا کے حتمی وقت کے حوالے سے اب تک کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔
یہ اب بھی واضح نہیں کہ طالبان، افغان حکومت کے عہدیداروں سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔
کابل کی مسلسل درخواستوں کے باوجود طالبان نے افغان حکومت سے مذاکرات کرنے سے انکار کیا ہے جبکہ امریکا نے بھی اصرار کیا ہے کہ افغانستان پر حتمی معاہدے میں حکومت کو بھی شامل ہونا چاہیے۔
امریکا نے یہ بھی کہا کہ امن مرحلے کی کامیابی کے لیے مکمل جنگ بندی ناگزیر ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تمام معاملات پر اتفاق رائے تک کچھ حتمی نہیں، زلمے خلیل زاد
افغان میڈیا کے مطابق افغان حکومت نے دوحہ میں مذاکرات میں شامل کرنے کے لیے قومی ٹیم تشکیل دینے کا آغاز کردیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سابق افغان سفیر برائے اسلام آباد حضرت عمر زخیلوال اور سابق ڈپٹی وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی، امریکا کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد سے امن مذاکرات کے امور پر مشاورت کے لیے دوحہ میں موجود تھے۔
دونوں افغان حکام طالبان سے مذاکرات کے لیے کثیر رکنی قومی ٹیم بنانے کی پیشکش لے کر دوحہ گئے تھے جبکہ کہا جارہا ہے کہ سابق افغان صدر حامد کرزئی اس ٹیم کی قیادت کریں گے۔
ٹیم کے آدھے سے زیادہ ارکان اپوزیشن جماعتوں اور غیر سرکاری جماعتوں سے ہوں گے۔
حکومتی نمائندوں کے پاس فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہوگا اور کوئی بھی فیصلہ کیے جانے سے قبل حکومت سے مشاورت کی جائے گی۔
یہ خبر ڈان اخبار میں 3 مارچ 2019 کو شائع ہوئی