سعودی عرب: انسانی حقوق کی رضاکار خواتین کے خلاف مقدمات چلانے کا فیصلہ
سعودی عرب میں گزشتہ برس کریک ڈاؤن کے دوران حراست میں لی گئیں انسانی حقوق کی خواتین رضاکاروں کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سعودی پراسیکیوٹر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’پبلک پراسیکیوشن یہ اعلان کرتی ہے کہ اس نے اپنی تفتیش مکمل کرلی ہے اور مدعا علیہ کے خلاف الزامات کی فہرست کی تیار کرلی ہے اور اب یہ مقدمات متعلقہ عدالتوں میں پیش کیے جائیں گے‘۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس ’اے پی‘ کی رپورٹ کے مطابق سعودی پراسیکیوٹر نے اپنے بیان میں الزام لگایا کہ گرفتار رضاکاروں کا مقصد ملکی سالمیت اور قومی اتحاد کو نقصان پہنچانا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب میں خواتین قیدیوں پرتشدد کا انکشاف، برطانوی اراکینِ پارلیمنٹ کا انتباہ
اس حوالے سے متعدد لوگوں نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حراست میں لی گئیں کچھ خواتین کو لاٹھیوں سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور برقی جھٹکے بھی دیے گئے جبکہ کچھ کو جنسی استحصال کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
تاہم یہ اطلاعات دینے والے تمام افراد نے خوف کی بنا پر اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کی درخواست کی تھی۔
دوسری جانب سعودی حکومت کی جانب سے اس بارے میں پوچھے گئے سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
حراست لی گئیں خواتین میں 20 سے 30 سال کی عمر سے لے کر مائیں، حتیٰ کہ دادیاں، نانیاں اور ریٹائر پروفیسر بھی شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب میں گرفتار رضاکاروں پر تشدد اور جنسی ہراساں کرنے کا الزام
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ان خواتین کو قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور مذکورہ گرفتاریوں پر کینیڈا کی تنقید کے سبب دونوں ممالک کے تعلقات بھی منقطع ہیں۔
دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی ان گرفتاریوں پر سعودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا جو مبینہ طور پر ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے کریک ڈاؤن کے حکم پر کی گئیں۔
اس ضمن میں یومن رائٹس واچ مشرق وسطیٰ کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل پیج کا کہنا تھا کہ ’خواتین کے حقوق کی رضاکاروں کو بلا مشروط رہا کرنے کے بجائے سعودی پراسیکیوشن ان کے خلاف الزامات عائد کررہا ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب: خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والے مزید 4 کارکن گرفتار
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سعودی حکام نے تشدد کے سنگین الزامات کی تحقیقات کے لیے کچھ نہیں کیا، وہ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی رضاکار ہیں کوئی تشدد کرنے والی نہیں جو مجرمانہ مقدمات کا سامنا کریں‘۔
واضح رہے کہ امریکی اخبار سے وابستہ صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر سعودی عرب کو دنیا بھر سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔