پی کے ایل آئی کیس: سابق چیف جسٹس کے تمام حکم نامے منسوخ
لاہور: سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین رکنی بینچ نے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ(پی کے ایل آئی) میں مبینہ کرپشن اور اس کے صدر و دیگر اسٹاف کی بھاری تنخواہوں کے خلاف سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے کیے گئے تمام احکامات کو منسوخ کردیا۔
ادارے کے مالی معاملات میں مبینہ بے ضابطگیوں کے پیش نظر عدالت کی جانب سے ایک فرانزک آڈٹ ماہر کو تعینات کیا گیا تھا جس کے بعد سابق چیف جسٹس نے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کو ہدایت کی تھی کہ پاکستان کڈنی اینڈ لیور سینٹر میں فنڈز کے غیرمنصفانہ استعمال کی تحقیقات کی جائیں۔
مزید پڑھیں: چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں بڑے مقدمات اور فیصلے
ثاقب نثار نے اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے عدالت کو چلانے کے لیے سابق جج کی زیر سربراہی ایک ایڈہاک کمیٹی بھی تشکیل دی تھی پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ اینڈ ریسرچ ایکٹ 2014 میں ترمیم کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے ادارے کے صدر ڈاکٹر سعید اختر کو بھی ملک چھوڑنے سے روک دیا تھا۔
مذکورہ سوموٹو کیس کی سربراہی بعدازاں لاہور رجسٹری میں جسٹس منظور احمد ملک کو ملی جہاں اس تین رکنی بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی شامل تھے۔
اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے قائم مقام ڈائریکٹر جنرل، سیکریٹری صحت اور پنجاب حکومت کے دیگر آفیشلز عدالت میں موجود تھے جہاں ان کی معاونت کے لیے قانونی افسران بھی موجود تھے۔
یہ بھی پڑھیں: نئے چیف جسٹس، آصف سعید کھوسہ کا تعارف
عدالت نے پرانے حکم نامے منسوخ کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو ہدایت کی کہ وہ اپنے ایکٹ کے تحت پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ چلائے اور ڈاکٹر سعید اختر کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے جبکہ ایڈہاک کمیٹی کو بھی ختم کردیا۔
پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ کے امور میں مداخلت میں اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مداخلت کس قانون کے تحت کی گئی؟ اس سوال کے جواب میں قانونی افسران نے ججوں کو بتایا کہ بینچ کے سابق سربراہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
جسٹس ملک نے کہا کہ ہر ادارے کو اپنی حدود کے اندر رہ کر کام کرنا چاہیے اور قانونی افسر سے کہا کہ بینچ تحقیقات کے حکم سے دستبردار ہوتا ہے کیونکہ یہ غیرجروری ہے عدالتی کی جانب سے اپنی حدود سے تجاوز کرنا ہے۔ ان ہدایات کے ساتھ ہی بینچ نے سوموٹو نوٹس کو ختم کردیا۔
12جنوری کو سابق چیف جسٹس کی زیر سربراہی بینچ کے قیام سے قبل ایک رپورٹ فائل کی گئی تھی جس میں اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ کی مینجمنٹ دیگر افراد کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کی تجویز پیش کی تھی۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کے ایک اورجج کا چیف جسٹس کے حکم سے اختلاف
مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ کے منصوبے کو دسمبر 2017 تک مکمل ہونا تھا لیکن یہ اب تک زیر تعمیر ہے۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ حکومتی عہدیداران فنڈز کے غیرمنصفانہ استعمال میں ملوث ہیں اور مقدمے کے اندراج کے بعد تفصیلی تحقیقات کی جا سکتی ہے جبکہ ساتھ ساتھ اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی منصوبے میں التوا پر ٹھیکیداروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
یہ خبر یکم مارچ 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔