• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

قلندروں کا دھمال اور کراچی کے لیے وبال

شائع February 28, 2019

حالات خواہ کیسے بھی ہوجائیں، پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے سنسنی خیز مقابلے دیکھنے کا جوش اپنی جگہ برقرار رہتا ہے اور اب تو واقعی لیگ اتنے دلچسپ مرحلے میں داخل ہوگئی کہ ہر مقابلہ دیکھنے کے قابل ہے۔

ملتان کے ہاتھوں اسلام آباد یونائیٹڈ کی ناکامی کے بعد پوائنٹس ٹیبل پر جو صورتِ حال پیدا ہوئی تھی، بدھ کو ہونے والے 2 مزید میچز کے ساتھ وہ مزید پیچیدہ ہوچکی ہے۔ ان مقابلوں میں ایک طرف جہاں لاہور قلندرز کے ہاتھوں شکست نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو سرِفہرستِ پوزیشن سے محروم کردیا، وہیں اسلام آباد مسلسل 2 شکستوں کے بعد بالآخر کراچی کنگز کو ہرا کر سب سے اوپر پہنچ گیا ہے۔

مزید پڑھیے: ملتان کی حیران کن کامیابی، پی ایس ایل دلچسپ مرحلے میں

اس سیزن میں لاہور قلندرز نے روایتی حریف کراچی کنگز کے خلاف شاندار کامیابی سے بھی بڑھ کر جو کارنامہ انجام دیا ہے، وہ پوائنٹس ٹیبل پر سرِفہرست کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو شکست دینا ہے۔ اس ناقابلِ یقین کامیابی میں اہم کردار ادا کیا نیپالی باؤلر سندیپ لمیچھانے کی کیریئر بیسٹ باؤلنگ نے۔ انہوں نے شین واٹسن، رائلی روسو اور عمر اکمل جیسے بڑے ناموں سمیت 4 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا، وہ بھی صرف 10رنز دے کر۔ اس کارکردگی کی وجہ سے کوئٹہ اسکور بورڈ پر صرف 106 رنز بنا پایا، جی ہاں صرف 106 رنز، جو لاہور نے باآسانی 2 وکٹوں کے نقصان پر ہی عبور کرلیے۔

قلندرز کے پاس شاہین آفریدی اور حارث رؤف جیسے عمدہ فاسٹ باؤلرز تو ہیں ہی، لیکن یاسر شاہ کا ساتھ دینے کے لیے سندیپ کا میدانِ عمل میں کارکردگی دکھانا یقینی طور پر لاہور کے لیے بہت نیک شگون ہے اور باقی ٹیموں کے لیے ڈراؤنا خواب۔ بہرحال، لاہور کوئٹہ کے خلاف اپنے پچھلے میچ میں آخری گیند پر شکست کھا بیٹھا تھا، جس کا پورا پورا بدلہ انہوں نے دبئی میں لے لیا ہے۔

میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پانے والے سندیم لمیچھانے—تصویر پاکستان سپر لیگ ٹوئٹر
میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پانے والے سندیم لمیچھانے—تصویر پاکستان سپر لیگ ٹوئٹر

لاہور کی کارکردگی میں اب بھی تسلسل نہیں ہے جیسا کہ سیزن کے آغاز سے ہی وہ 'ایک مقابلہ ہارا، دوسرا جیتا' کر رہے ہیں۔ اب 6 میچز گزرنے کے بعد ان کے پاس غلطی کی گنجائش کم ہے۔ ٹاپ 4 میں جگہ پکی کرنے اور اگلے مرحلے تک جانے کے لیے انہیں آئندہ میچز میں ہمت دکھانا ہوگی۔

دوسری جانب کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اب بجھے بجھے سے لگ رہے ہیں۔ وجہ سادہ سی ہے، مسلسل 4 مقابلے جیتنے کے بعد کراچی اور لاہور سے شکست، یعنی ان ٹیموں سے جو پوائنٹس ٹیبل پر سب سے نیچے تھیں۔ قلندرز کے خلاف صرف 106 رنز پر ڈھیر ہوجانا اور اس سے پہلے کراچی کے خلاف 186 رنز کا دفاع نہ کر پانا ظاہر کرتا ہے کہ ان دونوں مقابلوں میں کوئٹہ کی باؤلنگ اور بیٹنگ دونوں ناکامی کا منہ دیکھ چکی ہیں۔

اس کے باوجود حالات گلیڈی ایٹرز کے قابو میں ہیں۔ بالخصوص ڈیوین براوو کی آمد سے انہیں خوب حوصلہ ملے گا۔ پہلے 4 مقابلوں میں کامیابی نے انہیں جس مقام پر پہنچا دیا ہے، باقی ماندہ مقابلوں کے لیے انہیں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کہ جہاں 2 سے 3 فتوحات بھی انہیں کسی اہم پوزیشن پر پہنچانے کے لیے کافی ہوں گی۔

مزید پڑھیے: کوئٹہ، اِس مرتبہ غلطی کی گنجائش نہیں

کنگز کی حالت تو خود کراچی کی زبان میں بہت پتلی ہے، جو ایک بار پھر ہارا ہے اور وہ بھی اپنی سنگین غلطیوں کی وجہ سے۔ اسلام آباد جو یکے بعد دیگرے ہارتا ہوا آیا، وہ کراچی کے خلاف مقابلے میں پوری طرح حاوی نظر آیا۔ ایسا نہیں ہے کہ کراچی نے اچھا آغاز نہیں لیا تھا، 10ویں اوور کے اختتام پر صرف ایک وکٹ کے نقصان پر 100 رنز تو ایسی پوزیشن ہے جہاں سے صرف وہی ہار سکتا ہے جو خود غلطی کرے اور کراچی نے ایک نہیں کئی غلطیاں کیں۔

لیام لوِنگسٹن اور بابر اعظم کی 78 رنز کی شراکت کے بعد جب اننگز کو اگلے گیئر میں ڈالنے کی ضرورت تھی، تب کنگز نے گیئر کی جگہ ہینڈ بریک لگا دیا۔ گیارہویں اوور میں 101 رنز اور اننگز کے باقی آدھے حصے میں صرف 67 رنز کا اضافہ، وہ بھی 7 وکٹوں کے نقصان کے ساتھ۔

بلاشبہ اس میں اسلام آباد کے باؤلرز کی عمدہ باؤلنگ کا بھی کردار بھی تھا، لیکن پھر بھی کراچی کو 169 رنز کا دفاع کرنا چاہیے تھا اور خاص کر ایسی صورت میں تو ضرور جب حریف کے 7 اوورز میں 47 رنز پر 3 کھلاڑی پویلین لوٹ چکے ہوں۔ یعنی کراچی کو بیٹنگ میں بھی ایک بار برتر پوزیشن ملی اور پھر باؤلنگ کرتے ہوئے بھی غالب مقام پر آیا، لیکن دونوں بار اس حیثیت کو ضائع کیا۔

دراصل یہ اسلام آباد کے آصف علی کی شاندار جارحانہ اننگز تھی جس نے کراچی کو مقابلے کی دوڑ سے مکمل طور پر باہر کردیا۔ ایک اینڈ سے جہاں فلپ سالٹ نے 38 گیندوں پر 46 رنز بنائے وہیں آصف نے 38 گیندیں کھیلیں اور 70 رنز بنائے، وہ بھی 5 چوکوں اور 6 چھکوں کی مدد سے، جن میں سے ایک نو-بال پر لگایا گیا تھا۔ جی ہاں! ایک مرتبہ پھر عثمان شنواری کی نو-بال پر۔

آصف نے مقابلے کو اس مقام تک پہنچا دیا تھا جہاں سے اسلام آباد تبھی ہار سکتا تھا جب وہ کراچی والی حرکتیں کرتا لیکن ہر کوئی ایسی فاش غلطیاں نہیں کرتا، اس لیے اسلام آباد بھی آخری اوور میں شاداب خان کے چھکے کے ساتھ جیت گیا۔ حاصل کیے گئے 2 قیمتی پوائنٹس، اور کوئٹہ کی لاہور کے ہاتھوں کی شکست کی وجہ سے، دفاعی چیمپئن اسلام آباد اب پوائنٹس ٹیبل پر سب سے اوپر ہے۔

میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پانے والے آصف علی—تصویر پاکستان سپر لیگ ٹوئٹر
میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پانے والے آصف علی—تصویر پاکستان سپر لیگ ٹوئٹر

اس میچ میں کراچی سے ہوئیں بہت ساری غلطیاں۔ ایک تو بیٹنگ پوری رفتار سے جاری تھی کہ اننگز پٹری سے اتر گئی۔ کولن انگرام اور بین ڈنک کیا آؤٹ ہوئے، اننگز ہی ہاتھ سے نکلتی چلی گئی۔ پھر باؤلنگ میں کچھ بھیانک فیصلے کیے گئے جیسا کہ جب صرف 5 اوورز کا کھیل باقی تھا تو عماد وسیم نے بجائے خود باؤلنگ کرنے کے اوور پارٹ ٹائم کولن منرو کو پکڑا دیا۔ یہ بہت ہی سنگین غلطی تھی کیونکہ اس وقت آصف علی کا ’بلّا چارج‘ عروج پر تھا اور پچھلے ہی اوور میں وہ عثمان شنواری کے اوور سے 18 رنز لوٹ چکے تھے۔ یہاں منرو نے 19 رنز کھائے، 2 چھکوں اور ایک چوکے کے ساتھ اور مقابلہ کراچی کی پہنچ سے دُور بلکہ بہت دُور چلا گیا۔

مزید پڑھیے: کیا حکومتی بچت مہم پی ایس ایل تک بھی پہنچ گئی؟

پھر ایک اور فیصلہ کن مرحلہ وہ تھا جب کراچی کے محمد رضوان نے آصف علی کا ایک آسان کیچ چھوڑ دیا، وہ بھی اس وقت جب وہ صرف 13 رنز پر کھیل رہے تھے اور یہ ڈراپ کراچی کو بہت، بہت مہنگا پڑا۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ شکست کے تمام لوازمات کراچی نے خود اپنے ہاتھوں سے تیار کیے اور اس کی وہ تمام خامیاں ایک مرتبہ پھر کھل کر سامنے آ گئیں جن پر کوئٹہ کے خلاف شاندار کامیابی کی وجہ سے پردہ پڑ گیا تھا۔

اس وقت ٹاپ پوزیشن کے حصول کی جنگ تو شاید اتنی سخت نہ ہو، جتنی کراچی، ملتان اور لاہور کی ٹاپ 4 میں پہنچنے کی تڑپ دیکھنے کے قابل ہوگی۔ اس لیے دم سادھ کر بیٹھیں کہ آگے بہت ہی دلچسپ مقابلے آنے والے ہیں۔

فہد کیہر

فہد کیہر کرکٹ کے فین ہیں اور مشہور کرکٹ ویب سائٹ کرک نامہ کے بانی ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر fkehar@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024