• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

پشاور ہائیکورٹ کے جج حملے میں زخمی

شائع February 28, 2019
زخمی جج کو ہسپتال منتقل کردیا گیا — فوٹو: سراج الدین
زخمی جج کو ہسپتال منتقل کردیا گیا — فوٹو: سراج الدین

پشاور ہائی کورٹ کے جج، جسٹس ایوب کی گاڑی پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں وہ اور ان کے ڈرائیور زخمی ہوگئے۔

فائرنگ کا واقعہ پشاور کے علاقے حیات آباد فیز میں صبح ساڑھے 8 بجے پیش آیا۔

سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) کینٹ وسیم ریاض نے فائرنگ کی تصدیق کی اور کہا کہ زخمی افراد کو علاج کے لیے نجی ہسپتال منتقل کردیا گیا۔

مزید پڑھیں: عدالت میں فائرنگ، 2 بھائیوں سمیت 3 جاں بحق

حملہ آوروں نے جسٹس ایوب خان کی گاڑی پر فائرنگ کی — فوٹو: سراج الدین
حملہ آوروں نے جسٹس ایوب خان کی گاڑی پر فائرنگ کی — فوٹو: سراج الدین

ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’جسٹس ایوب خان ججز کالونی سے اپنی سرکاری گاڑی میں ہائی کورٹ جارہے تھے کہ ان کی گاڑی پر حملہ ہوا‘۔

انہوں نے بتایا کہ گاڑی کو سامنے سے نشانہ بنایا گیا اور ان کی گاڑی پر تقریباً 20 گولیاں چلائی گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق حملے میں ایس ایم جی اور پستول کا استعمال کیا گیا۔

ایس پی کینٹ نے بتایا کہ حملہ آور فائرنگ کرکے فوری موقع سے فرار ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیں: طیبہ تشدد کیس: اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملزمان کی سزا معطل کردی

انہوں نے واقعے کے عینی شاہد کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’موقع پر موجود ایک شخص نے اپنے بیان میں کہا کہ 2 مسلح افراد نے گاڑی پر فائرنگ کی‘۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم حملے کی تحقیقات کر رہے ہیں اور یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ حملے میں استعمال کی جانے والی بائیک یا گاڑی کو کہیں اور تو نہیں کھڑا کیا گیا‘۔

دوسری جانب سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ظہور آفریدی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس ایوب اپنے گھر سے نکلے تو انکو نشانہ بنایا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جسٹس ایوب کی گاڑی پر 2 موٹر سائیکل سواروں نے حملہ کیا۔

ان کے مطابق حملے میں کلاشنکوف اور نائن ایم ایم اسلحہ استعمال ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ میڈیکل ٹیم کے مطابق جسٹس ایوب کی حالت خطرے سے باہر ہے، ان کے ساتھ سیکورٹی اہلکار کیوں نہیں تھے اس کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ابتدائی طور پر 2 عینی شاہدین کے بیانات قلم بند کیے گئے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024