• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm

عالمی برادری کا پاکستان، بھارت سے کشیدگی کم کرنے کا مطالبہ

شائع February 27, 2019
ایران نے دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کی پیشکش کردی — فائل فوٹو/اے پی
ایران نے دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کی پیشکش کردی — فائل فوٹو/اے پی

بین الاقوامی برادری نے پاکستان اور بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور کشیدگی بڑھانے سے گریز کریں۔

برطانیہ کو بڑھتی کشیدگی پر تشویش

برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے دونوں ممالک پر تحمل کا مظاہرہ کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ برطانیہ کو پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر شدید تشویش ہے۔

انہوں نے برطانوی پارلیمنٹ میں خطاب کے دوران کہا کہ برطانیہ دونوں ممالک سے کشیدگی ختم کرنے کے لیے تحمل سے کام لینے کا مطالبہ کرتا ہے۔

تھریسا مے نے کہا کہ برطانیہ دونوں ممالک سے رابطے میں ہے اور خطے کے استحکام کو یقینی بنانے کے لیے ان پر مذاکرات کرنے اور کشیدگی کا سفارتی حل نکالنے کا مطالبہ کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اس کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور دیگر بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان کی عسکری صلاحیت منوانے کے بعد بھارت کو مذاکرات کی پیشکش

ایران کی ثالثی کی پیشکش

ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی۔

انہوں نے دونوں ممالک پر زور دیا کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں۔

ایران کی نیم سرکاری خبر ایجنسی 'اثنا' کے مطابق جواد ظریف، بھارتی وزیر خارجہ سے بھی گفتگو کریں گے تاہم اس کا وقت سامنے نہیں آیا۔

یورپی یونین کا تحمل کا مظاہرہ کرنے پر زور

غیر ملکی خبر ایجنسی 'اے ایف پی' کے مطابق یورپی یونین کی سفارتی سربراہ فیڈریکا موغیرینی نے بھی پاکستان اور بھارت سے 'حتی الامکان تحمل' کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال کے دونوں ممالک اور پورے خطے کے لیے خطرناک نتائج ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ دونوں ممالک اب حتی الامکان تحمل کا مظاہرہ کریں گے اور مزید کشیدگی سے گریز کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: دراندازی کے بعد بھارت کو جواب دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا، آصف غفور

پاک بھارت کشیدگی

واضح رہے کہ 14 فروری کو بھارت کے زیر تسلط کشمیر کے علاقے پلوامہ میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس کی بس پر حملے میں 44 پیراملٹری اہلکار ہلاک ہوگئے تھے اور بھارت کی جانب سے اس حملے کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیا گیا تاھ جبکہ پاکستان نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔

گزشتہ روز بھارت کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ بھارتی فضائیہ کے طیاروں نے پاکستان کی حدود میں در اندازی کرتے ہوئے دہشت گردوں کا مبینہ کیمپ کو تباہ کردیا۔

بھارت کی جانب سے آزاد کشمیر کے علاقے میں دراندازی کی کوشش کو پاک فضائیہ نے ناکام بناتے ہوئے اور بروقت ردعمل دیتے ہوئے دشمن کے طیاروں کو بھاگنے پر مجبور کیا تھا۔

بعد ازاں پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے بتایا تھا کہ آزاد کشمیر کے علاقے مظفر آباد میں داخل ہونے کی کوشش کر کے بھارتی فضائیہ کے طیاروں نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کی خلاف ورزی کی۔

انہوں نے بتایا تھا کہ بھارتی فضائیہ نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی، جس پر پاک فضائیہ فوری طور پر حرکت میں آئی اور بھارتی طیارے واپس چلے گئے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ پاک فضائیہ کے بروقت ردعمل کے باعث بھارتی طیارے نے عجلت میں فرار ہوتے ہوئے بالاکوٹ کے قریب ایک ہتھیار پھینکا تاہم اس سے کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔

بدھ کو ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ پاک فضائیہ نے آج صبح پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے بھارتی فورسز کے 2 لڑاکا طیاروں کو مار گرایا۔

انہوں نے بتایا کہ ایک بھارتی لڑاکا طیارہ مقبوضہ کشمیر میں گر کر تباہ ہوا جبکہ دوسرا طیارہ پاکستان کے علاقے آزاد کشمیر میں گرا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج نے ایک بھارتی پائلٹ کو گرفتار بھی کر لیا۔

واقعے کے بعد وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ جو میلی آنکھ سے دیکھے گا پاکستان اسے جواب دینے کا حق رکھتا ہے، کل بھی کہا تھا کہ پاکستان جواب ضرور دے گا۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024