• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

ناقابلِ شکست کوئٹہ سے شکست ہی کے قابل کراچی تک

شائع February 24, 2019

پاکستان سپر لیگ کے چوتھے سیزن کے آغاز پر کسی کو یہ اندازہ تک نہ تھا کہ اِس مرتبہ گلیڈی ایٹرز کو پکڑنا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہوجائے گا، لیکن اِس بار کوئٹہ نے واقعی کمال کردیا ہے۔ چوتھے پی ایس ایل میں مسلسل چوتھی کامیابی حاصل کرکے پوائنٹس ٹیبل پر اپنے سرِفہرست مقام کو اور مضبوط کرچکا ہے اور اُن کے تازہ شکار بنے ہیں لاہور قلندرز۔

وہ الگ بات ہے کہ اِس بار کامیابی اتنی آسانی سے نصیب نہیں ہوئی، اور نہ ہی 161 رنز بنا کر ملی، بلکہ اس سے کہیں چھوٹے ہدف کے تعاقب میں ہی کوئٹہ والوں کا سانس پھول گیا تھا۔ بس قسمت اچھی تھی اور کپتان سرفراز احمد کی قائدانہ اننگز بھی کہ جنہوں نے آخری گیند پر جتوا دیا، وہ بھی چھکے کے ذریعے اور ہاں! شارجہ میں۔

دلچسپ بات یہ کہ صرف ایک دن قبل جس ڈیوڈ ویز نے آخری گیند پر چھکا لگا کر لاہور قلندرز کو ایک یادگار کامیابی دلائی تھی، اگلے ہی دن انہوں نے ہی آخری گیند پر سرفراز احمد سے چھکا کھایا اور یوں 'جیسی کرنی ویسی بھرنی' کا محاورہ سچ ثابت ہوا۔

کسی کو یہ اندازہ تک نہ تھا کہ اِس مرتبہ گلیڈی ایٹرز کو پکڑنا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہوجائے گا—پی ایس ایل ٹوئٹر اکاؤنٹ
کسی کو یہ اندازہ تک نہ تھا کہ اِس مرتبہ گلیڈی ایٹرز کو پکڑنا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہوجائے گا—پی ایس ایل ٹوئٹر اکاؤنٹ

ملتان سلطانز کے خلاف مقابلے میں ایک یادگار کامیابی حاصل کرنے کے بعد اُمید تھی کہ قلندرز 'ٹاپ آف دی ٹیبل' کوئٹہ کو بہت سخت چیلنج دیں گے اور ایسا ہوا بھی۔ صرف کپتان اے بی ڈی ولیئرز ہی 45 رنز بنا کر کچھ نمایاں کارکردگی دکھا سکے، دوسرا کوئی بیٹسمین 29 رنز سے آگے نہ بڑھ سکا اور کوئٹہ کو ملا 144 رنز کا ہدف جو بظاہر آسان لگتا تھا لیکن جیسے جیسے مقابلہ آگے بڑھتا گیا، دلچسپ ہوتا چلا گیا۔ جب 13ویں اوور کے آغاز پر ڈیوین اسمتھ رن آؤٹ ہوئے تو صرف 81 رنز پر کوئٹہ کی آدھی ٹیم میدان بدر ہوچکی تھی۔ 41 گیندوں پر 63 رنز کی ضرورت تھی اور کپتان سرفراز احمد آخری امید بنے میدان میں موجود تھے۔

'سیفی' کی قائدانہ اننگز اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس مقابلے میں لاہور کی شکست کی بڑی وجہ اُن کی اپنی فیلڈنگ تھی۔ انہوں نے رن آؤٹ کرنے کے کم از کم 5 واضح مواقع ضائع کیے جبکہ ایک مرتبہ تو سرفراز احمد کی قیمتی وکٹ اُن کے ہاتھ آ بھی گئی لیکن پھر بھی محروم رہ گئے۔ یہ دلچسپ صورتحال تب پیدا ہوئی جب ایک گیند پر امپائر نے سرفراز کو ایل بی ڈبلیو آؤٹ دے دیا۔ فیصلے کے خلاف ریویو لیا گیا تو واضح ہوگیا کہ ایل بی ڈبلیو تو نہیں تھا لیکن اپیل کے دوران ہی سرفراز کو رن آؤٹ بھی کردیا گیا تھا۔ اب چونکہ امپائر نے اِس گیند پر آؤٹ دے دیا تھا، اس لیے ان کی انگلی اٹھتے ہی گیند 'ڈیڈ' ہوگئی، یوں یہ رن آؤٹ شمار ہی نہیں ہوا۔

تصور کیجیے اگر امپائر سرفراز کو آؤٹ نہ دیتے تو رن آؤٹ اُن کی کہانی تمام کردیتا۔ بہرحال، کوئٹہ کو آخری اوور میں 7 رنز کی ضرورت تھی اور ڈیوڈ ویز نے بہت عمدہ اوور پھینکا اور معاملے کو آخری گیند پر 2 رنز تک لے آئے۔ یہاں سرفراز نے ویز کی فُل ٹاس کا پورا پورا فائدہ اٹھایا اور گیند کو میدان سے باہر پھینک کر مقابلے کا فیصلہ کردیا۔ ایک دن پہلے آخری گیند پر چھکا لگا کر دیوانہ وار جشن منانے والے ویز سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔

اے بی ڈی ولیئرز—پی ایس ایل ٹوئٹر اکاؤنٹ
اے بی ڈی ولیئرز—پی ایس ایل ٹوئٹر اکاؤنٹ

یہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی سیزن میں مسلسل چوتھی کامیابی تھی جو ثابت کرتی ہے کہ ایک مرتبہ پھر کتنی زبردست تیاری کے ساتھ میدان میں آئے ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ مشکل بھی انہیں اسی مقابلے میں پیش آئی اور یقیناً اگر قسمت ساتھ نہ ہوتی تو یہ مقابلہ کوئٹہ کے ہاتھ نہ آتا۔ لاہور قلندرز انہیں شکست دینے کے بہت قریب پہنچے لیکن قسمت نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ بہرحال، قلندرز کو فائٹ کرتے دیکھنا بہت اچھا لگا اور کراچی کنگز کو ان سے سبق لینا چاہیے جو پے در پے ہار رہا ہے اور اپنی آخری پوزیشن کو پکّا کر رہا ہے۔

اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف مقابلے میں کراچی کی وہ کمزوریاں مزید کھل کر سامنے آ گئیں کہ جن کا ذکر پچھلی تحریر میں کیا گیا تھا۔ کمزور بیٹنگ، کھلاڑیوں میں باہمی تال میل کی کمی اور اس کے نتیجے میں قیمتی وکٹوں کا گنوانا، بے اثر کپتانی اور بے سمت باؤلنگ۔

کسی نے تصور بھی نہ کیا ہوگا کہ جس ٹیم کے پاس محمد عامر، عثمان شنواری اور عماد وسیم تینوں ہوں اور اس کی باؤلنگ کا یہ حال ہوگا۔ کراچی کنگز نے 143 رنز کے دفاع کے لیے 7 باؤلرز آزمائے لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ اس لیے جب تک ان کمزوریوں پر قابو نہیں پایا جائے گا، کراچی سے بہتر نتائج کی امید بھی نہ رکھی جائے۔

اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف مقابلے میں کراچی کی کمزوریاں مزید کھل کر سامنے آئیں—تصویر پی ایس ایل ٹوئٹر اکاؤنٹ
اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف مقابلے میں کراچی کی کمزوریاں مزید کھل کر سامنے آئیں—تصویر پی ایس ایل ٹوئٹر اکاؤنٹ

اسلام آباد نے قائم مقام کپتان شاداب خان کی قیادت میں کچھ انوکھے فیصلے بھی کیے جیسا کہ سمیت پٹیل کو اوپر کے نمبروں پر بھیجنا، یہ فیصلہ بھی خوب ثابت ہوا۔ سمیت نے صرف 30 گیندوں پر 45 رنز بنائے رونکی کے ساتھ مل کر صرف 7 اوورز میں 62 رنز کا اضافہ کرکے مقابلے کا فیصلہ کردیا۔ یعنی اسلام آباد نے جو چال چلی کامیاب رہی، جو مہرہ آگے بڑھایا اس نے اپنا کام بھرپور طریقے سے کیا، جو پتّہ پھینکا وہ کارگر ثابت ہوا یہاں تک کہ سمیت پٹیل کو اوپری نمبر پر بھیجنے کا فیصلہ بھی۔ جبکہ کراچی کو کولن منرو کی آمد بھی نہ بچاسکی اور نہ ہی اویس ضیاء کی شمولیت سے کوئی فرق پڑا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سیزن کے لیے اسلام آباد یونائیٹڈ میں کافی تبدیلیاں آئی ہیں، اب مصباح الحق نہیں ہیں اور کئی انٹرنیشنل اسٹارز کا ساتھ بھی حاصل نہیں۔ نہ ہی انگلینڈ کے ایلکس ہیلز، سیم بلنگز اور اسٹیون فن ہیں، نہ ہی کئی یادگار فتوحات میں مرکزی کردار ادا کرنے والے آندرے رسل اور نہ ہی پچھلے سال کے نائب قائد جے پی ڈومنی۔ اِن سب کے باوجود اسلام آباد کی کارکردگی غیر معمولی ہے۔

نئے کپتان محمد سمیع کی عدم موجودگی میں بھی شاداب خان جس طرح اپنی قیادت کے پہلے امتحان میں پورے اترے ہیں وہ ٹیم انتظامیہ کی مضبوط گرفت کو ظاہر کرتا ہے۔ کراچی کنگز کی انتظامیہ بھی کسی سے کم نہیں، پاکستان کے قومی کوچ مکی آرتھر کو وسیم اکرم جیسے جانے مانے کھلاڑی کا ساتھ حاصل ہے اور ان دونوں کو چاہیے کہ کنگز کو کوئی سمت دیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت ہی نکل جائے۔

ٹیم کاغذ پر پر تو اچھی ہے لیکن میدانِ عمل میں اچھی کارکردگی کے لیے انہیں تحریک کی ضرورت ہے اور یہ تحریک انہیں آرتھر اور وسیم اکرم سے ہی مل سکتی ہے۔

فہد کیہر

فہد کیہر کرکٹ کے فین ہیں اور مشہور کرکٹ ویب سائٹ کرک نامہ کے بانی ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر fkehar@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Farhan Ali khan Feb 24, 2019 11:23pm
They should resign, that's the solution.

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024