• KHI: Fajr 5:37am Sunrise 6:57am
  • LHR: Fajr 5:15am Sunrise 6:41am
  • ISB: Fajr 5:23am Sunrise 6:51am
  • KHI: Fajr 5:37am Sunrise 6:57am
  • LHR: Fajr 5:15am Sunrise 6:41am
  • ISB: Fajr 5:23am Sunrise 6:51am

ٹیکنالوجی، ترقی کی دوڑ اور پاکستان کا الٹا سفر

شائع February 23, 2019
لکھاری ٹیکنالوجی انٹرپرنیور ہیں۔
لکھاری ٹیکنالوجی انٹرپرنیور ہیں۔

پاکستان کے بڑے شہروں میں ٹیکنالوجی ایونٹ کا رحجان ابھر رہا ہے جس میں مختلف تجزیہ نگار، انٹرپرینیور، سرمایہ کار اور تبصرہ نگار پاکستان میں ’تیزی سے ابھرنے والی ٹیکنالوجی صنعت‘ میں موجود موقعے کے بارے میں ولولہ خیز انداز میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ مقامی سطح پر پلے بڑھے ٹیکنالوجی جادوئی گھوڑوں، یعنی ارب ڈالر کی مالیت والی کمپنیوں کی بہتات کے ساتھ پاکستان ایشیا کی اگلی سیلیکون ویلی بن جائے گا۔

چند کا کہنا ہے کہ مدثر شیخا کی کریم (Careem) اور ضیا چشتی کی افینیٹی (Afiniti) کی صورت میں پاکستان یہ جادوئی گھوڑے پہلے ہی اپنے پیروں پر کھڑا کرچکا ہے۔ مدثر شیخا اور ضیا چشتی دونوں ہی پاکستان میں بڑے ہوئے ہیں اور ان دونوں کی کمپنیاں نمایاں حیثیت کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ تاہم اب جبکہ ہم ان کی کامیابی کی کہانیاں کا دعوٰی کرتے ہیں اور ذاتی کاروبار شروع کرنے والی ان شخصیات کی کوششوں کو سراہتے ہیں، تو اس وقت ہم یہ بھول ہی جاتے ہیں کہ ان دونوں نے اپنی تعلیم اور تربیت امریکا سے حاصل کی ہوئی ہے اور ان کی کمپنیاں بھی پاکستان سے باہر رجسٹرڈ ہیں۔

ہم ان کی کامیابی اپنی کامیابی بتاتے ہیں لیکن ہم نے پاکستان میں ایسا ماحول پیدا ہی نہیں کیا جس میں پاکستان میں پیدا ہونے والا یا والی، یہاں بڑا یا بڑی ہونے والی اور یہاں سے تعلیم حاصل کرنے والا یا والی انٹرپرینیور مقامی سطح پر اپنی کمپنی رجسٹر کروائے اور اپنی کمپنی کی قیمت ارب ڈالر تک پہنچادے۔

یہاں سوالات ابھرتے ہیں کہ اگر ہمارے ہاں قیمتی ٹیلنٹ موجود ہے تو ہمارے پاس جادوئی گھوڑے کیوں نہیں ہیں؟

جواب سادہ ہے، ہم نے نئی نئی ٹیکنالوجی اور انٹرپرینیورز کے پنپنے کے لیے ضروری ماحول پیدا ہی نہیں کیا۔ ایک ایسا ماحول جس میں ایسے تعلیمی ادارے شامل ہوں جو ایک تخلیقی پیداواری ذہنیت کو فروغ دیتے ہوں، جہاں شفاف اور سہل حکومتی قوانین موجود ہوں اور جہاں مددگار مشورے دینے والے مالدار سرمایہ کاروں کی بہتات ہو۔

چلیے تعلیم پر نظر ڈالتے ہیں۔ دنیا کے ٹیکنالوجی مراکز کا اسٹینفورڈ اور ایم آئی ٹی جیسے عالمی معیار کے ریسرچ اداروں میں جمع ہونا کوئی اتفاق کی بات نہیں۔ ایک ایسا ملک جہاں بلوچستان کے سابق وزیرِاعلیٰ کہتے ہوں کہ ‘ڈگری ڈگری ہوتی ہے، اصلی ہو یا نقلی۔‘ اور جہاں پروفیسرز کو اکثر و بیشتر چوری کے مواد کے ساتھ لکھے اور شائع شدہ تحقیقی مضامین کی تعداد کی بنیاد پر ترقیاں دی جاتی ہوں، یہ دیکھے بغیر کہ اس کا معیار کیسا ہے، وہ ملک اگر گلوبل انوویشن انڈیکس 2018ء میں 126 ملکوں میں سے 109ویں نمر پر آئے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔

یہ بھی اتنی ہی بڑی حقیقت ہے کہ ہماری لاکھ کوششیں کرنے پر بھی ہم راتوں رات اسٹینفورڈ کے معیار کا کوئی ادارہ قائم نہیں کرسکتے۔ البتہ ہم یہ ضرور کرسکتے ہیں کہ مختلف ایسے علاقوں میں تخلیقی لوگوں کو سامنے لانے والی جگہیں (innovation clusters) بنائیں جہاں صنعتیں اور یونیورسٹیاں مل کر اعلیٰ سطحی تحقیقی مراکز قائم کرسکتے ہوں۔

تاہم، اس کام کے لیے مناسب جگہوں کی نشاندہی کرنے کی ضرورت پڑے گی، اعلیٰ تعلیم اور تحقیقی اداروں کی حالت بہتر کرنی ہوگی، ساتھ ہی ساتھ تحقیق اور تعلیم میں سرمایہ کاریاں کرنی پڑیں گی جن سے ایک پوری نسل کو تو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوپائے گا۔ اس کام کے لیے ہمیں عام تعلیم میں اصلاحات اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ ہم زندگی بھر سیکھنے والے پیدا کرسکیں جو مسلسل سیکھنے کا عمل جاری رکھیں اور چوتھے صنعتی انقلاب میں آنے والی تبدیلیوں کے مطابق خود کو ڈھال سکیں۔

ایک اور کڑوی سچائی بھی ہے جسے حکومتی افسران اور مقامی ٹیکنالوجی شوقین تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں اور وہ یہ حقیقت ہے کہ مقامی قوانین، ریگولیشنز اور انفرااسٹریکچر کی وجہ سے انٹرپرینیورز کو سنگین چیلنج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ غیر شفاف ہیں، اکثر و بیشتر تبدیل ہوتے ہیں اور بجلی کے کنیکشن لگوانے جیسے چھوٹے موٹے کام بھی بوجھل اور وقت طلب بن جاتے ہیں۔

پاکستان میں کاروباری مرکز کے لیے بجلی کا کنیکشن لگوانے میں 160 سے زائد دن لگ جاتے ہیں، جو 98 دنوں کے علاقائی اوسط سے کہیں زیادہ ہے اور اس میں لاگت بھی 50 فیصد زیادہ آتی ہے۔ 2018ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں پاکستان ورلڈ بینک کی ایز آف ڈوئنگ بزنس انڈیکس میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 11 ملکوں پر سبقت پاکر 136ویں نمبر پر آیا لیکن گزشتہ دہائی کے تناظر میں دیکھیں تو پاکستان 2009ء سے 50 سے زائد ملکوں سے پیچھے گیا ہے۔

آخری بات یہ کہ چینی کمپنیوں کی حالیہ سرمایہ کاریوں، گزشتہ دہائی میں انکیوبیٹرز (نیا کاروبار شروع کرنے والوں یا کاروبار کا آغاز کرنے والوں کو خدمات فراہم کرنے والی کمپنی)، ایکسی لیٹرز، اسٹارٹ اپ مقابلوں اور کانفرنسوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے علاوہ چند نامور وی سی فرمز کے آنے کے باوجود پاکستان کی جانب سے بنایا گیا سرمایہ خطے میں موجود دیگر کھلاڑیوں کی وجہ سے چھوٹا پڑ گیا ہے اور خارجی راستوں کو اہمیت نہیں دے رہے؛ پاکستان کے ٹیکالوجی سے متعلق اپنا کاروبار شروع کرنے والوں نے انڈونیشیا جیسے ملکوں کی نسبت 2018ء میں 3 کروڑ ڈالر سے کم سرمایہ جوڑا جبکہ انڈونیشیا (جہاں اگر ہم جادوئی گھوڑوں کو نہ بھی گنیں تو بھی) 2018ء میں 2 ارب 70 کروڑ 40 لاکھ سے زائد سرمایہ بڑھایا۔

ان تمام چینلجز کے باجود سینیٹ کو بتایا گیا ہے کہ آئی ٹی بجٹ میں 53 فیصد کی کٹوتی کی جائے گی، جو پہلے سے غیر مسابقتی صنعت کے لیے کسی دھچکے سے کم نہیں۔

ہمارے کاروباری ماحول میں بنیادی خرابیوں کو مدِنظر رکھیں تو پاکستان کو ایشیا کی اگلی سیلیکون ویلی بنتا دیکھنے کی آرزو کراچی کی سڑکوں پر حقیقی جادوئی گھوڑے کو دوڑتے دیکھنے کی تمنا جیسی ہی محسوس ہوتی ہے۔

آذربائجان سے لے کر زمبیا تک، تقریباً ہر ملک اپنے اپنے خطے کی اگلی سیلیکون ویلی بنانے کی خواہش رکھتا ہے، پھر چاہے ان کے لیے یہ صنعت کتنی نوزائیدہ ہی کیوں نہ ہو۔

قومی غیر معمولیت (national exceptionalism) کا یہ احساس ہمارے لیے نیا نہیں۔ لیکن اگر ہم ایسا کاروباری ماحول بنانا چاہتے ہیں جو ہمیں عالمی حریفوں کے مدمقابل بنائے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے کمزور پہلوؤں کو تسلیم کریں اور ایسے قوانین، نظام اور کلچر پیدا کریں جو پاکستان میں ٹیکنالوجی سے متعلق کاروبار شروع کرنے والوں کے لیے ماحول کو بہتری کی جانب لے جائے تاکہ پاکستان کے جادوئی گھوڑے سامنے آسکیں۔


یہ مضمون 23 فروری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

عثمان حنیف

لکھاری ٹیکنالوجی انٹرپرنیور ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (5) بند ہیں

شان علی Feb 23, 2019 08:06pm
زبردست تحریر۔۔۔ فکر انگیز اور آنکھیں کھول دینے والی،یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ' آئیڈیا کروڑوں کا' کی ایک قسط دیکھ لینے والے بھی خود کو Entrepreneur سمجھنے لگتے ہیں اور بات بات پہ سٹیو جابز اور مارک زکربرگ کی مثالیں دیتے پھرتے ہیں۔
Mubashir Munir Feb 24, 2019 10:24am
good article the pti government should work on the suggestions of author
Shiraz Khan Feb 25, 2019 06:27am
اصل بات یہ کہ خام خیالی سے باہر آ جانا ہی بہتر ہے۔
زاہد بٹ Feb 25, 2019 10:43am
آپ نے بالکل درست نشاندئی کی ہے، ضرورت انفراسٹرکچر ٹھیک کرنے کی ہے، جب تک یہ درست نہیں ہوگا، حکومتیں ہوائی گھوڑوں پر خیالی پلاوُ ہی پلاتی ریں گی ۔
Rashid Ali Feb 25, 2019 12:06pm
Very well written: Thought Provoking & Eyes Opener

کارٹون

کارٹون : 26 نومبر 2024
کارٹون : 25 نومبر 2024