یورپی پارلیمنٹ کے اراکین کا بھارت سے کشمیر میں مظالم بند کرنے کا مطالبہ
بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر دنیا بھر میں آوازیں اٹھ رہی ہیں اور اب یورپی پارلیمنٹ کے زیادہ تر اراکین نے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کشمیر میں فوری طور پر مظالم بند کرے۔
دفترخارجہ کی جانب سے جاری ایک پریس ریلیز کے مطابق اس اہم پیش رفت میں یورپی پارلیمنٹ کی ذیلی کمیٹی برائے انسانی حقوق نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال پر باضابطہ طور پر تبادلہ خیال کیا۔
خیال رہے کہ 2007 کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہے کہ یورپی یونین کے فورم پر باضابطہ طور پر مسئلہ کشمیر پر بحث کی گئی۔
مزید پڑھیں: بھارت کی جارحانہ پالیسی، 'تشدد کی خطر ناک ترین صورت کو فروغ دینے کی کوشش'
اس مباحثے میں اصل توجہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر (او ایچ سی ایچ آر) کی کشمیر پر جون 2018 میں جاری رپورٹ پر دی گئی جبکہ اس دوران ذیلی کمیٹی کی جانب سے رپورٹ کی مصنف کرسٹین چنگ کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔
پریس ریلیز کے مطابق انہوں نے اپنی گفتگو میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خراب صورتحال پر روشنی ڈالی اور اس بات پر زور دیا کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جامع اور آزادانہ بین الاقوامی تحقات کے لیے انکوائری کمیشن کے قیام سے متعلق او ایچ سی ایچ آر کی سفارشات کا جائزہ لیا جائے۔
اس دوران ذیلی کمیٹی کے چیئرمین پیئر انتونیو پنزیری نے اپنے ابتدائی ریمارکس میں یورپی یونین کی جانب سے دنیا بھر میں انسانی حقوق کے تحفظ کے عزم کا اظہار کیا، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وہ انسانی حقوق پر بات چیت کرنے سے کبھی نہیں شرماتیں، یہاں تک کہ جب اس میں پیچیدہ سیاسی معاملات ہی شامل ہوں۔
انہوں نے نشاندہی کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر سب سے طویل غیر حل شدہ مسئلہ ہے اور یورپی یونین سمجھتی ہے کہ قوموں کے درمیان مذاکرات اس طرح کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ضروری ہیں۔
اس مباحثے میں آزاد کشمید کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر اور بیلجیئم کے لیے پاکستان کے سفیر، یورپین یونین اور لیکسمبرگ نغمانہ عالمگیر ہاشمی کے علاقہ بڑی تعداد میں یورپی پالیمنٹ کے اراکین، انسانی حقوق کےنمائندے اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں، تھنک ٹینکس، مختلف ممالک کے سفیر اور یورپ بھر میں کشمیری تارکین وطن کے اراکین بھی شریک تھے۔
یورپی پارلیمنٹ کے اراکین میں واجد خان، جیولی وارڈ، نوشینہ مبارک، امجد بشیر، ڈیوڈ مارٹن، جورڈی سول، سی اون سیمن، جین لیمبرڈ، رچرڈ کوربیٹ، تھیرے سا گریفن اور جو لیئنن شامل تھے۔
مباحثے کے دوران اراکین کے بڑی تعداد نے او ایچ سی ایچ آر رپورٹ کی سفارشات کو تسلیم کیا اور اس پر فوری عمل درآمد کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر مقبوضہ کشمیر میں مظالم کو ختم کرے اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے واقعات کی تحقیقات کرے۔
اراکین پارلیمنٹ نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کی ضرورت ہے۔
خیال رہے کہ یہ ایونٹ پاکستان کے لیے ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے کیونکہ یہ ایک دہائی سے زائد عرصے میں پہلی مرتبہ ہے کہ یورپی یونین نے باضابطہ طور پر کشمیر کے معاملے پر کوئی ایسا پروگرام منعقد کیا، جہاں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اسلام آباد کے تحفظات پر بات چیت کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: کشمیر میں ریموٹ کنٹرول دھماکا، 44 بھارتی فوجی ہلاک
دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ عوامی نوعیت کے اس ایونٹ نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے متعلق شعور اجاگر کیا اور یورپی پارلیمٹن کی ذیلی کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اہم فورم سے اس طرح کا ایونٹ دیگر یورپی یونین اداروں کے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرے گا کہ وہ اپنے دوطرفہ رابطوں میں بھارتی حکومت کے سامنے کشمیر کا مسئلہ اٹھائیں۔
ملیحہ لودھی کی ملاقات
قبل ازیں اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گیوتیرس سے ملاقات کی۔
ریڈیو پاکستان نے رپورٹ کیا کہ اس ملاقات کے دوران انہوں نے انتونیو گیوتیرس کو حالیہ پیش رفت اور مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے بارے میں آگاہ کیا۔
ملیحہ لودھی نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے درخواست کی کہ وہ پلوامہ حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کو کم کرنے میں کردار ادا کریں۔
وزیر اعظم سے برطانوی وفد کی ملاقات
علاوہ ازیں برطانوی پارلیمنٹ کے ایف وفد نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی اور علاقائی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔
ریڈیو پاکستان کے مطابق عمران خان سے ملاقات کرنے والے وفد کی قیادت پاکستانی نژاد کابینہ کی وزیر سیدہ وارثی نے کی۔
اس موقع پر عمران خان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی جانب سے کیے جانے والے مظالم پر اور پلوامہ حملے کے بعد بھارتی حکومت کے جنگی جنون پر روشنی ڈالی۔