• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

فلسطینی بچوں پر اسرائیل کے مہلک ہتھیاروں کے تجربات کا انکشاف

شائع February 18, 2019
عرب پروفیسر کا کہنا ہے کہ اسرائیل فلسطینی بچوں پرہتھیاروں کی آزمائش کرتا ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی
عرب پروفیسر کا کہنا ہے کہ اسرائیل فلسطینی بچوں پرہتھیاروں کی آزمائش کرتا ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی

جامعہ عبرانی یروشلم القدس کی ایک عرب پروفیسر نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل اکثر ہتھیاروں کی طاقت سے متعلق جاننے کے لیے معصوم فلسطینیوں یہاں تک کہ بچوں پر بھی ان کے تجربات کررہا ہے۔

پریس ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق پروفیسر نادیرا شالہوب-کیوورکین نے چند روز قبل کولمبیا یونیورسٹی میں دیےگئے ایک لیکچر میں کہا کہ ’ اسرائیل فلسطینی بچوں پر ہتھیاروں کی آزمائش کرتا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ فلسطینی مقامات اسرائیلی سیکیورٹی انڈسٹری کی لیبارٹریاں ہیں‘۔

اسرائیل آرمی ریڈیو کی رپورٹ کے مطابق جامعہ عبرانی یروشلم کی سوشل ورک کی پروفیسر نے چند بچوں کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فوج خاص طور پر نوجوان نسل کو ہتھیاروں کی اس مبینہ آزمائش کا نشانہ بناتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق محمد نامی بچے نے کہا کہ ’ آرمی یہ جائزہ لیتی ہے کہ ہمارے خلاف کون سے بم استعمال کریں، ہمیں رائفل، گیس بم یا اسٹنگ بم سے مارا جائے، ہمارے اوپر پلاسٹک کے بیگز رکھے جائیں یا کپڑے رکھے جائیں‘۔

مزید پڑھیں: اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے فلسطینی نوجوان جاں بحق

دابوش کی رپورٹ کے مطابق عرب پروفیسر کی تقریر کا عنوان ’ فلسطینی یروشلم میں تشدد کی ٹیکنالوجی ‘ تھا جو جامعہ عبرانی میں کی گئی تحقیق پر مبنی تھا،جسے بیرون ملک جامعہ عبرانی کی تحقیق کے طور پر جانا جاتا ہے۔

تاہم جامعہ عبرانی کی جانب سے لیکچر پر کوئی مذمت نہیں کی گئی بلکہ صرف یہ کہا گیا پروفیسر کی جانب سے پیش کیے گئے خیالات یونیورسٹی کے نظریات کی ترجمانی نہیں کرتے۔

یونیورسٹی کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ ’ یہ پروفیسر کے ذاتی خیالات ہیں جس کا انہوں نے خود اظہار کیا ہے‘۔

اسرائیلی فوج کے خلاف نئے الزامات سے قبل اکثر میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسرائیلی فوج قتل کیے جانے والے فلسطینی بچوں کے اعضا کا کاروبار کرتی ہے۔

بیلجیئم کی اے سی او ڈی ٹریڈ یونین کے ثقافتی سیکریٹری اور فلاسفی آف سائنس کے اسکالر رابرٹ واندر بیکین نے اگست 2018 میں کہا تھا کہ غزہ پٹی پر موجود آبادی بھوک سے مررہی ہے، انہیں زہر دیا جاریا ہے، بچوں کو ان کے اعضا کے لیے اغوا اور قتل کیا جارہا ہے‘۔

اس سے قبل نومبر 2015 میں اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر نے کہا تھا کہ اسرائیل فلسطینیوں کو قتل کرکے ان کے اعضا نکال لیتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: غزہ: اسرائیلی ٹینک کے گولے سے 3 فلسطینی جاں بحق

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو لکھے گئے خط میں ریاض منصور نے کہا تھا کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے قتل کیے گئے فلسطینیوں کی لاشیں کورنیا اور دیگر اعضا کے بغیر واپس کی جاتی تھیں۔

خیال رہے کہ نیویارک ٹائمز نے اگست 2014 میں شائع کی گئی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ 2000 سے اسرائیل انسانی اعضا کی غیرقانونی اسمگلنگ میں ’غیر معمولی کردار ‘ ادا کررہا ہے۔

خیال رہے کہ اسرائیل کی جانب سے اعضا کی چوری سے متعلق سب سے پہلے سویڈن کے معروف اخبار ایفٹون بلیڈیٹ نے 2009 میں رپورٹ کیا تھا۔

اسرائیل فوجیوں کو ’انسان نما حیوان ‘ بنارہا ہے، نیوز اینکر

پریس ٹی وی کی علیحدہ رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی معروف نیوز اینکر نے اسرائیلی فوج کی جانب سے گرفتار شدہ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی رپورٹس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل فوجیوں کو ’انسان نما حیوان‘ میں تبدیل کررہا ہے۔

چینل 13 ٹی وی کی نیوز اینکر اوشرت کوٹلر نے 2 روز قبل یہ بیان 2 فلسطینی قیدیوں پر کیے گئے ظلم سے متعلق جاننے کے بعد دیا۔

ہاریٹز کے مطابق اسرائیلی سپاہیوں نے 8 جنوری کو ہاتھوں میں ہتھکڑی اور آنکھوں پر پٹی باندھے ہوئے ایک وال کو اس وقت تک تشدد کا نشانہ بنایا کہ ان کی پسلیاں اور ناک ٹوٹ گئی، سپاہیوں کی جانب سے ان کے گرفتار شدہ بیٹے کو یہ درد ناک منظر دیکھنے پر مجبور کیا گیا تھا۔

نیوز اینکر نے کہا تھا کہ ’ وہ بچوں کو فوج میں بھیجتے ہیں، علاقوں میں بھیجتے ہیں اور وہ انسان نما جانور بن کر واپس آتے ہیں، یہ قبضے کا نتیجہ ہے‘۔

مزید پڑھیں: اسرائیلی فائرنگ سے فلسطینی نوجوان جاں بحق

اوشرت کوٹلر کے بیان پر اسرائیلی قیادت میں برہمی کی لہر دوڑ گئی ہے اور وہ اپنی فوج کا دفاع کررہے ہیں، اس حوالے سے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا کہ ’ صحافی کے بیان پر جتنی مذمت کی جائے کم ہے‘۔

چینل 13 کی جانب سے نیوز اینکر کے بیان پر کہا گیا کہ ’ اوشرت ایک صحافی ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ اپنی رائے قائم کرتی ہیں جیسے دیگر رپورٹرز کرتے ہیں‘۔

نیٹ ورک کی جانب سے کہا گیا کہ’ وہ اپنے ذاتی خیال سے متعلق آواز اٹھارہی تھیں‘۔

اسرائیل میں بڑھتی ہوئی تنقید کی وجہ سے اینکر کو وضاحت دینی پڑی انہوں نے کہا کہ ’ میری تنقید ان سپاہیوں کی جانب تھی جو فلسطین پر قبضے کے دوران معصوم افراد کو تکلیف پہنچاتے ہیں‘۔

خیال رہے کہ انسانی حقوق کے سرگرم کارکنان اور ان کے وکلا کی جانب سے فلسطینی قیدیوں کے ساتھ اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز اٹھائی جاتی رہی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024