• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

اسرائیل کا فلسطین کی ٹیکس کی مدمیں واجب الادا رقم روکنے کا فیصلہ

شائع February 18, 2019 اپ ڈیٹ February 24, 2019
اسرائیل نے گزشتہ ماہ درآمدات پر تقریباً 12 کروڑ 70 لاکھ ڈالر وصول کیے تھے—فوٹو: اے ایف پی
اسرائیل نے گزشتہ ماہ درآمدات پر تقریباً 12 کروڑ 70 لاکھ ڈالر وصول کیے تھے—فوٹو: اے ایف پی

اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کو ٹیکس کی مد میں واجب الادا 13 کروڑ 80 لاکھ ڈالر روکنے کا فیصلہ کرتے ہوئے الزام لگایا کہ مذکورہ رقم تل ابیب کی جیلوں میں زیر حراست فلسطینی قیدیوں کی فلاح وبہبود کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر سے جاری اعلامیے میں الزام لگایا گیا کہ ’فلسطینی اتھارٹی نے گزشتہ برس اتنی ہی رقم اسرائیلی جیلوں میں زیرحراست قیدیوں کی رہائی، ان کے اہلخانہ کی فلاح وبہبود کے لیے خرچ کی۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل نے غزہ پٹی پر ’نئی رکاوٹوں‘ کی تعمیر شروع کردی

خیال رہے کہ فلسطینی مارکیٹ میں درآمدات اشیا اسرائیلی بندر گاہ کے ذریعے آتی ہے اور اس طرح تل ابیب اشیا پر ٹیکس وصول کرکے فلسطینی اتھارٹی کو ادا کرتا ہے۔

اسرائیل نے گزشتہ ماہ درآمدات پر تقریباً 12 کروڑ 70 لاکھ ڈالر وصول کیے تھے۔

تل ابیب کا دعویٰ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے قیدیوں کی رہائی اور ان کے اہلخانہ پر خرچ ہونے کی وجہ سے اسرائیل مخالفین کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے۔

تل ابیب کا کہنا تھا کہ ٹیکس کی مد میں ہونے والی ادائیگی اسرائیل کے خلاف ہی استمعال ہو رہی ہے۔

دوسری جانب فلسیطنی اتھارٹی نے اسرائیلی دعویٰ مسترد کیا اور موقف اختیار کیا کہ ’مذکورہ ادائیگی ہرگز اسرائیل کے خلاف استعمال نہیں ہوتی بلکہ زیرحراست قیدیوں کے اہلخانہ کی فلاح وبہبود میں خرچ ہوتی ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا: یہود مخالف بیان پر مسلم خاتون رکنِ کانگریس کی معذرت

فلسطین لیبریشن آرگنائیزیشن کے ایک ذمہ دار احمد مجدلانی نے بتایا کہ اسرائیل اور امریکا کی جانب سے ادائیگی روکنے کا مقصد بلیک میل کرنا مقصود ہے جبکہ دونوں پہلے ہی فلسطینی امداد کے لاکھوں ڈالر روک چکے ہیں۔

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے رواں برس کے اندر فلسطین اور اسرائیل سے متعلق امن منصوبہ پیش کیے جانے کا امکان ہے جس کے بارے میں فلسطینیوں کا یقین ہے کہ مذکورہ منصوبہ اسرائیل کے جانبدار ہوگا۔

فلسطینوں کے خلاف اسرائیلی وحشیانہ سلوک کی وجہ سے مسلم ممالک میں نفرت بڑھ رہی ہے۔

گزشتہ ماہ ملائیشیا نے ایسے ایونٹس کی میزبانی کرنے سے انکار کردیا تھا جس میں اسرائیلی ایتھلیٹس شرکت کریں گے۔

مزیدپڑھیں: اسرائیلی فائرنگ سے فلسطینی نوجوان جاں بحق

جس پر اسرائیلی ایتھلیٹس کو ایونٹ میں شرکت کی اجازت نہ دینے پر انٹرنیشنل پیرالمپکس کمیٹی نے ملائیشیا کو 2019 ورلڈ پیرا سوئمنگ چیمپیئن شپ کی میزبانی سے محروم کردیا تھا۔

انٹرنیشنل پیرالمپکس کمیٹی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب ملائیشین حکام اسرائیلی تیراکوں کی ایونٹ میں بلاتفریق باحفاظت شرکت کے حوالے سے ضروری یقین دہانی کرانے میں ناکام رہے۔

جب 2017 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا تو اس کے خلاف ملائیشیا میں بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ایران سے متعلق امریکی نائب صدر کے الزامات مضحکہ خیز قرار

یہ پہلا موقع نہیں کہ ملائیشیا نے اسرائیلی ایتھلیٹس کو اپنے ملک میں منعقدہ ایونٹ میں شرکت کی اجازت نہ دی ہو بلکہ اس سے قبل 2015 میں منعقدہ ایک ایونٹ میں ملائیشیا نے اسرائیلی ونڈ سرفرز کو ویزا جاری کرنے سے انکار کردیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024