کیا حکومتی بچت مہم پی ایس ایل تک بھی پہنچ گئی؟
پاکستان سپر لیگ نے پچھلے 3 سالوں میں جتنی کامیابیاں سمیٹی ہیں شاید ہی کسی دوسری لیگ نے اتنے مختصر وقت میں حاصل کی ہوں۔ لیکن ریشم میں ٹاٹ کا ایک پیوند ضرور ہے، وہ ہے میچز کے دوران تماشائیوں کی حاضری۔
دبئی میں ہونے والے بیشتر میچز میں تماشائیوں کی جگہ خالی نیلی کرسیاں دیکھنا ایک شرمناک منظر ہوتا ہے اور ہر گزرتے سال کے ساتھ جہاں لیگ کی مقبولیت بڑھ رہی ہے، وہیں میدان خالی ہی ہوتے جا رہے ہیں۔
یہ لیگ انتظامیہ کے لیے لمحہ فکریہ بھی ہے اور ساتھ ہی لیگ کے تمام میچز جلد از جلد پاکستان منتقل کرنے کی طرف اشارہ بھی کیونکہ اب پی ایس ایل خالی میدانوں کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
اس سال بھی پاکستان سپر لیگ میں 34 میچز کھیلے جائیں گے کہ جن میں سے 26 متحدہ عرب امارات میں ہوں گے جبکہ آخری 8 میچز کے لیے میلہ کراچی اور لاہور کے میدانوں پر سجایا جائے گا۔ امارات میں کھیلے جانے والے مرحلے کے لیے دبئی اور شارجہ کے ساتھ اِس مرتبہ پہلی بار ابوظہبی کا بھی انتخاب کیا گیا ہے حالانکہ اس میدان پر تماشائیوں کا آنا شاید دبئی اور شارجہ سے بھی زیادہ مشکل ہوگا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ایس ایل 4 کا اصل جوش و خروش ہمیں پاکستان میں ہونے والے آخری 8 میچز میں نظر آئے گا لیکن اس سے پہلے تقریباً تین چوتھائی میچز متحدہ عرب امارات میں ہونے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پی ایس ایل کی تشہیر کی اصل ضرورت امارات میں ہی تھی۔
پچھلے 3 سالوں میں ایسی کوئی نمایاں کوشش نظر نہیں آئی کہ جس سے شائقینِ کرکٹ پی ایس ایل کے جاندار مقابلے دیکھنے کے لیے میدانوں کا رخ کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ لیکن اس مرتبہ نئی انتظامیہ سے جو خوش فہمیاں وابستہ تھیں وہ افتتاحی تقریب کے اگلے ہی روز ختم ہوگئی ہیں۔ جب سب کو امید تھی کہ چھٹی کے دن 2 بڑے میچز دیکھنے کے لیے عوام دبئی اسٹیڈیم بھر دیں گے، اُسی روز حاضری مایوس کن رہی۔
کراچی کنگز اور ملتان سلطانز کے مقابلے کی تو بات ہی چھوڑ دیں، رات کو پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے میچ میں بھی شائقین کی تعداد حوصلہ کُن نہیں تھی۔ حالانکہ پشاور-کوئٹہ مقابلے ہمیشہ بہت زیادہ توجہ حاصل کرتے ہیں اور اگر ان کا میچ چھٹی کے دن ہو تو عموماً ہاؤس فل ہوجاتا ہے۔
لیکن کراچی-ملتان میچ میں دبئی اسٹیڈیم بمشکل 25 فیصد اور کوئٹہ-پشاور مقابلے میں ایک تہائی بھرا ہوا تھا۔ کراچی کے بابر اعظم اور لیام لِونگسٹن کی شاندار بیٹنگ اور ریکارڈ پارٹنرشپ، محمد عامر کی طوفانی باؤلنگ اور پھر دوسرے مقابلے میں مصباح الحق کے چھکے اور عمر اکمل کی شاندار فاتحانہ باری دیکھنے کے لیے اتنے لوگ موجود نہیں تھے، جتنے ہونے چاہیے تھے۔
سیزن کے آغاز پر یہ بات سامنے آئی تھی کہ متحدہ عرب امارات میں پی ایس ایل کی تشہیر پر آنے والی لاگت میں خاطر خواہ کمی کی گئی ہے۔ وہ تو اب پتہ چلا ہے کہ یہ ’بچت‘ اصل میں تشہیر کے بجٹ کو کم کرکے کی گئی تھی۔ پچھلے سیزنز میں دبئی اور ملحقہ شہروں میں بسوں، ٹیکسیوں، بل بورڈز اور دیگر تشہیری ذرائع کو استعمال کیا جاتا رہا ہے لیکن اس مرتبہ وہ گرمجوشی سرے سے نظر ہی نہیں آئی۔ شاید حکومت کی ’سادگی مہم‘ کے اثرات تھے جو سپر لیگ تک پہنچ گئے اور پہلے 2 دن وہی نتائج سامنے آئے ہیں جو ایسی کسی بھی حرکت سے نکلنے چاہئیں۔
بتایا جاتا ہے کہ نئی انتظامیہ نے پاکستان سپر لیگ کے اِس سیزن کے لیے متحدہ عرب امارات میں تشہیر پر 70 فیصد کٹوتی کی ہے۔ پچھلے سال 30 ڈبل ڈیکر بسوں، 20 عام بسوں، 1400 ٹیکسیوں، 10 فلائی اوورز، 20 بل بورڈز اور 350 ای-ہولڈنگز کے ذریعے پی ایس ایل کی تشہیر کی گئی تھی لیکن اِس بار صرف 400 ٹیکسیوں، 10 بل بورڈز اور 70 ای-ہولڈنگز پر اکتفا کرکے میدان بھرنے کے خواب دیکھے جا رہے تھے۔
سال کے ایک ایسے وقت میں جب بنگلہ دیش پریمیئر لیگ ختم ہوئے ایک ہفتہ ہی گزرا ہے اور دنیا کی دوسری سب سے بڑی بگ بیش لیگ ابھی جاری ہے، میدان کے اندر اور باہر دونوں جگہ تماشائیوں کی توجہ حاصل کرنا ویسے ہی آسان نہ تھا جسے عدم تشہیر سے اور مشکل بنا دیا گیا ہے۔
جو کسر رہ گئی تھی وہ دنیائے کرکٹ کی 8 بڑی ٹیموں کی مصروفیت نے پوری کردی ہے۔ ویسٹ انڈیز-انگلینڈ، جنوبی افریقہ-سری لنکا، بھارت-آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ-بنگلہ دیش باہمی سیریز میں مصروف ہیں، یعنی پاکستان کے علاوہ صرف زمبابوے ہے کہ جس کی کوئی بین الاقوامی مصروفیت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی بڑے نام ہمیں اس سال نظر نہیں آئیں گے یعنی نتیجہ مقبولیت میں مزید کمی۔
ایک اور بڑی کمی جو اس سیزن میں ہمیں محسوس ہوگی وہ ہے کراچی-لاہور مقابلوں کی شیڈولنگ میں ایک خامی۔ یہ بات تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ’کراچی-لاہور‘ مقابلے کی کیا اہمیت ہے؟ اس مقابلے میں جوش و خروش کو عروج پر پہنچایا جاسکتا تھا اگر کنگز اور قلندرز کے میچز دبئی میں کروانے کے بجائے کراچی اور لاہور میں کروائے جاتے۔
پی ایس ایل 4 کے پہلے مرحلے کے آخری 4 میچز لاہور اور کراچی ہی میں کھیلے جائیں گے کہ جن میں کراچی اپنے ہوم گراؤنڈ یعنی نیشنل اسٹیڈیم پر پشاور اور کوئٹہ کا سامنا کرے گا جبکہ لاہور قذافی اسٹیڈیم میں اسلام آباد اور ملتان سے کھیلے گا۔
کیا ہی مزا آتا اگر دونوں شہر اپنے 2 باہمی مقابلے ان 2 میدانوں پر کھیلتے یعنی پہلے کراچی کنگز کھیلنے کے لیے لاہور جاتا اور پھر قلندرز جوابی مقابلے کے لیے کراچی کا رخ کرتے، یقیناً اسٹیڈیمز کی گنجائش کم پڑجاتی لیکن تماشائی پورے نہ پڑتے۔
خیر، ابھی تو اس کا تصور ہی کیا جاسکتا ہے اس لیے دبئی کے خالی میدان دیکھ کر ہی گزارا کریں اور ساتھ ہی یہ دعا بھی کریں کہ ہمارے سارے خدشات اور اندازے غلط ثابت ہوں اور آئندہ میچز توقعات سے بڑھ کر کامیاب ہوں۔