• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:48pm
  • LHR: Asr 3:26pm Maghrib 5:03pm
  • ISB: Asr 3:25pm Maghrib 5:03pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:48pm
  • LHR: Asr 3:26pm Maghrib 5:03pm
  • ISB: Asr 3:25pm Maghrib 5:03pm

مُٹھی بھر چلغوزے اور گیس کا بل

شائع February 18, 2019
لکھاری لاہور میں ڈان اخبار کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔
لکھاری لاہور میں ڈان اخبار کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔

صوفی کہتا ہے کہ ‘کیہہ جاناں میں کون؟ مگر ہمارے پڑوسی راجہ صاحب اس بات پر زور دیتے ہیں کہ معقول افراد کے پاس یہ جاننے کے طریقے ہوتے ہیں کہ ایک شخص کی کتنی قدر و قیمت ہے، اس کے قبضے میں کون سے خزانے ہیں اور وہ واقعات سے بھرپور اپنی معاشی زندگی میں آنے والے کسی خاص لمحے میں کس حد تک بلاہچکچاہٹ، باآسانی یا ناگزیر طور پر اس خزانے کا کچھ حصہ خرچ کرسکتا ہے۔

راجہ صاحب ایک مقامی پلمبر کی مثال دیتے ہیں۔ پلمبر کے پاس ایسا کوئی سائنسی طریقہ نہیں ہوتا جس سے یہ پتہ لگایا جاسکے کہ اسے ملنے والے کام کا کون سا کلائنٹ کتنا پیسہ ادا کرے گا۔ اس کے بجائے وہ ایسے اشارے استعمال کرتا ہے جو ہمیشہ اتنے سادہ نہیں ہوتے کہ جن کی مدد سے کام کی قیمت کا اندازہ لگانا آسان ہوجائے۔

مثال کے طور پر، جہاں اس کی دکان واقع ہے وہاں کے رہائشیوں سے وہ دیگر رہائشی علاقوں کی نسبت کم پیسے طلب کرتا ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ جہاں وہ کام کرتا ہے وہاں کے مقابلے میں پڑوسی رہائشی علاقوں میں بڑے بڑے گھر ہیں اور وہاں رہنے والے زیادہ پیسے ادا کرنے کی استطاعت بھی رکھتے ہیں۔

کون کتنے پیسے دے سکتا ہے، درحقیقت یہی وہ فارمولہ ہے جو قیمت کے بجائے عام خرید اور خدمات کی قیمت کا فرق بتادیتا ہے۔ یہ ایک ایسے فارمولے کو جنم دیتا ہے جسے ہمارے قابلِ احترام ریاستی افسران کے الفاظ، کام اور پالیسیوں میں اپنے منطقی انجام تک لے جایا جاتا ہے۔

تو ان حضرات کے لیے فارمولہ حاضر ہے جن کو یہ سوچ ستاتی ہیں کہ کس طرح یہ افسران، بلکہ جنیئس کہیے جو قومی معیشت چلانے کے بنیادی ذمہ دار ہیں، ہماری تجوڑیوں میں خاموشی سے جمع کی ہوئی رقم کا پتہ لگا لیتے ہیں اور کس طرح وہ ان کے حالیہ عطیات یا ٹیکس وصول کرنے کے لیے ناموں کو ٹِک کرتے ہیں۔ انہیں صرف اور صرف مقامی سبزی فروش سے مشاورت کرنی ہوتی ہے کہ وہ اپنے محلے میں خریداروں کو کتنے روپے میں سبزی فروخت کرتا ہے اور ان میں سے کون کس حد تک خریدنے کی استطاعت رکھتا ہے، اور پھر اس حساب سے ان کے ریٹ مقرر کردیے جاتے ہیں۔

سوئی گیس کے ان باسز کی حالیہ سرگرمی پر نظر ڈالیے جو ہمیں یہ یاد دلاتے ہیں کہ سردیوں میں ہاٹ باتھ سے ملتی جلتی کوئی بھی چیز اپنے پاس رکھنا عیاشی ہوتی ہے، یا پھر ایک استطاعت سے باہر اور قابلِ اجتناب لگژری ہوتی ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جہاں پر آپ اس بات پر غور و فکر کرنا چھوڑ دیتے ہیں کہ کس طرح تعداد میں بڑھتے ہوئے ماہرین خالصتاً لوگوں کی عادات کی بنیاد پر ان کی درجہ بندی کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔

اس کام کا یہی طریقہ کار ہے کیونکہ مختلف مواقع پر ماہرین ہمیں یہ بتاتے چلے آ رہے ہیں کہ ان کے پاس اتنا مناسب تعداد میں ڈیٹا ہی حاصل نہیں کہ ٹھیک ٹھیک طور پر یہ بتایا جاسکے کہ ایک پاکستانی، اگر وہ غیر عیاش کے زمرے میں آتا ہے تو غلط طریقوں سے بننے والا، کس قدر امیر ہے کہ جو اپنی دولت کو چھپانے کی طرف مائل ہوسکتا ہے۔

ان اعداد و شمار کی غیر موجودگی میں، ماہرین بڑی سہولت کے ساتھ اس پرانے میٹر ریڈر کا طریقہ اپناتے ہیں، جس کے پاس تازہ ریڈنگ ریکارڈ کرنے کے لیے مختلف مقامات پر جانے کا وقت نہیں ہوتا ہے اور وہ ماضی کے اوسط اعداد کی بنیاد پر بل میں اضافہ کرکے نیا بل بنا دیتا ہے۔

ماہرین نے گزشتہ موسمِ سرما کے بلوں کا جائزہ لیا اور فیصلہ کیا کہ دیگر کے مقابلے میں نسبتاً بڑے صارفین سے زیادہ پیسے وصول کیے جائیں۔ وہ صارفین جنہیں زیادہ پیسے ادا کرنے کے لیے کہا گیا ہے ان کا زیادہ پیسے کمانے والوں کی درجہ بندی میں شامل ہونا ضروری نہیں، بلکہ ان کا جرم زیادہ گیس استعمال کرنا ہے، اور یہی جرم انہیں ایک ایسے مراعت یافتہ درجے میں شامل کردیتا ہے جس کے بارے میں حکومت اور آئی ایم ایف کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ پیسے دینے کی استطاعت رکھتے ہیں۔

ایسا ہی فارمولہ دیگر جگہوں پر استعمال کیا جاتا ہے جہاں زیادہ سے زیادہ عوامی اقتصادی سرگرمی گارنٹی کے ساتھ ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ میں وزیر کھڑا ہوتا ہے اور خودساختہ راست بازی اور ایک قبائلی سردار کی نیک نیتی کے ساتھ یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ اور اس کی اعلیٰ سطح کی کمپنی میں شامل دیگر افراد جو موبائل فون استعمال کرتے ہیں انہیں ٹیکس کی صورت میں ایک بھاری رقم ادا کرنی ہوگی۔ ان کے الفاظ قانون بن جاتے ہیں اور کابینہ میں شامل ہر شخص اپنے ساتھی کے لیے خوش ہوتا ہے کیونکہ اس نے یہ طریقہ ایسے وقت میں نکالا جب اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

وقتاً فوقتاً لوگ اس فارمولے کو مات دینے کے لیے اپنے تھوڑے نئے قسم کے طریقے پیش کرتے ہیں لیکن طاقتور نظام کے آگے ان کی کامیابی بہت محدود ہوتی ہے۔ کچھ ایسا ہی مندرجہ ذیل کیس میں بھی ہوا: متعدد بیماریوں سے دوچار عمر کے 60 کے پیٹے میں محمود اپنے بیٹے کو بستر کے قریب بلاتے ہیں اور اسے اپنی ایک خواہش کی تکمیل میں مدد کرنے کے لیے کہتا ہے۔

والد نے چلغوزے کھانے کی شدید طلب کا اظہار کیا جو کوششوں کے بعد بھی مٹ نہیں رہی۔ جب والد کی جانب سے بے ہوشی کی حالت میں بار بار اس خواہش کا اظہار ہوا تو بیٹا موٹر سائیکل پر سوار ہوکر قریب واقع خشک میوہ جات کی دکان پر پہنچا اور وہاں سے اپنے والد کی شدید طلب کو پورا کرنے کے لیے مٹھی بھر چلغوزے اور صنوبری بادام لے آیا۔ یہ اس بیمار شخص کی آخری خواہش ثابت ہوئی۔ چلغوزے کھانے کی طلب پورا کرنے کے بعد وہ کوئی اور چیز نہ کھا سکے اور چند دنوں بعد انتقال کرگئے۔

اس ثبوت کے ساتھ آپ محمود کو اقتصادی اعتبار سے کس طرح بیان کریں گے؟ ان کا انتقال ڈاکٹرز کی نجی نگہداشت میں ہوا، جو ہم میں سے زیادہ تر کی استطاعت سے باہر ہے۔ وہ اس اعتبار سے خوش قسمت تھے کہ وہ اپنے اہلِ خانہ کے درمیان دنیا سے رخصت ہوئے اور مرنے سے قبل خشک میوہ جات کھانے کو ملے جو مہنگے ہونے کے باعث پاکستان کی ایک بڑی اکثریت کی پہنچ سے باہر ہیں۔

ان اعشاریوں کی بنیاد پر ماہرین شاید انہیں ایک مراعت یافتہ انسان کے درجے میں رکھیں جو زندگی میں آخری وقت تک اپنی چند پرانی مہنگی عادات کو بنا ترک کیے اس دنیا سے کافی حد تک پُرسکون انداز میں رخصت ہوئے۔

تاہم ان کی زندگی کا اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو ایک یکسر ہی مختلف تصویر نمودار ہوتی ہے۔ ایک ایسے شخص کی تصویر جو نہ زندگی میں دولت کما سکا اور نہ ہی وہ پیشہ یا کام اختیار کرسکا جو وہ اپنی زندگی میں اختیار کرنا چاہتا تھا۔

وہ شخص بڑی حد تک خالی ہاتھوں کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوا لیکن شاید ماہرینِ شماریات کی جنوری 2019ء کی ڈائری میں وہ ایک ایسا شخص شمار ہوگا جس کی دسترس میں ایسی زیادہ تر خوشیاں اور سہولیات تھیں جو عام پاکستانی کو میسر نہیں ہوتیں۔ وہ ایک ایسا شخص تھا جس کی عادات کئی کئی محلوں میں پائی نہیں جاتیں اور مقامی پلمبر کے معقول اندازے سے بھی باہر ہے۔

لیکن ہاں سوئی گیس افسران اس شخص کے لواحقین کو حالیہ مہینے کا بل بھیج کر یہ معلوم کرسکتے ہیں۔


یہ مضمون 15 فروری 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

اشعر الرحمٰن

لکھاری لاہور میں ڈان کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 20 دسمبر 2024
کارٹون : 19 دسمبر 2024